Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1436ھ

ہ رسالہ

16 - 20
بچے اور ہماری ذمے داریاں

مولانا خالد سیف الله رحمانی
	
یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے الله تعالیٰ کابہت بڑا عطیہ ہیں ، خود قرآن نے ان کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا ہے۔ ( الفرقان:74) اور الله تعالیٰ نے دواولو العزم پیغمبروں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کے سلسلہ میں ذکر فرمایا کہ انہو ں نے خدا سے اولاد کے لیے دعا فرمائی اور الله تعالیٰ نے اس کو قبول فرمایا۔ (الصافات:100۔مریم:5) اس سے معلوم ہوا کہ بچوں کی خواہش انسان کی ایک فطری اور جائز خواہش ہے، الله تعالیٰ ہی نے ان کو انسان کے لیے آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بنایا ہے، بچوں کے بغیر کسی خوب صورت اور جاذب قلب ونظر سماج کا تصور بھی ممکن نہیں، اسلام نے جیسے سماج کے مختلف طبقات کے حقوق اور واجبات متعین کیے ہیں ؛ اس طرح بچوں سے متعلق ان کے سرپرستوں اور سماج کے فرائض کی بھی راہ نمائی کی ہے، بچوں سے متعلق اسلام کا پہلا سبق یہ ہے کہ انسان دنیا میں نئے انسان کی آمد پر خوش ہو ،نہ کہ غمگین اور فکر مند، الله تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام (ھود:71-69) اور حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت یحییٰ علیہ السلام (آل عمران:29) کی پیدائش کی اطلاع دی تو اس کو ”خوش خبری“ سے تعبیر فرمایا گیا ،بچوں کی پیدائش خوشی کی بات ہے، اس میں لڑکوں اور لڑکیوں کی کوئی تفریق نہیں، اسلام سے پہلے لوگ لڑکیوں کی پیدائش پر رنجیدہ خاطر ہوتے اور اس کو اپنے لیے باعث عار تصور کرتے تھے قرآن مجید نے اس کو کافرانہ طریقہ قراردیا ہے اور اس کی مذمت فرمائی ہے۔ (الزخرف:17) کیوں کہ انسان نہیں جانتا کہ اس کے لیے لڑکے زیادہ مفید ہوں گے یا لڑکیاں؟ اور کون مشکل وقتوں میں اس کے کام آئے گا؟ بچوں کا سب سے بنیادی حق ان کے زندہ رہنے کا حق ہے ، ہندوستان نے بچوں کے حقوق پر منعقدہ کنونشن کے دستاویز پر دستخط کیا ہے، اس میں پہلا حق یہی ہے اسلام نے جس طرح اس حق کی رعایت رکھی ہے شاید ہی اس کی مثال مل سکے، عام طور پر بچہ کا قانونی وجود اس وقت مانا جاتا ہے جب اس کی پیدائش ہو چکی ہو، لیکن اسلام کی نگاہ میں جس روز ماں کے رحم میں تخم انسانی نے قرار پکڑا اسی دن سے وہ ایک قابل احترام اور لائق حفاظت انسان ہے؛ اسی لیے اسلام کی نظر میں اسقاطِ حمل جائز نہیں ،بچہ کی پیدائش کے بعد اس کی حفاظت اور بقا کا انتظام نہ صرف والدین اور سرپرست،بلکہ پوری انسانی برادری کا فریضہ ہے، اسی مقصد کے لیے شریعت نے ماں پر یہ اخلاقی حق رکھا ہے کہ وہ بچوں کودودھ پلائے، قرآن مجید نے ایک سے زیادہ مواقع پر اس کا ذکر کیا ہے ، اس لیے میڈیکل سائنس میں یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ بچوں کے لیے ماں کے دودھ سے زیادہ مفید کوئی غذا نہیں، پھر جب تک بچے اس لائق نہ ہو جائیں کہ خود کسبِ معاش کر سکیں اس وقت تک بچوں کی کفالت والدین اور والدین نہ ہوں تو دوسرے قریبی رشتہ داروں پر رکھی گئی ہے۔ ماں باپ کے لیے یہ روا نہیں رکھا گیا کہ وہ نابالغ بچوں کو مزدوری پر لگائیں او راپنی ذمے داری سے پہلوتہی برتیں ۔ (الدرالمختار مع الرد:337/5)

آپ صلی الله علیہ وسلم نے سرپرستوں کو اس بات کی تعلیم دی ہے کہ بچوں کے معاملہ میں ایثار سے کام لیا جائے، چناں چہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا خدا نے ہر شخص کے لیے مجھ سے پہلے جنت کا داخلہ حرام کر دیا ہے ، لیکن میں قیامت کے روز اپنی داہنی طرف ایک عورت کو جنت کے دروازے کی سمت دوڑتے ہوئے دیکھوں گا، کہوں گا کہ اسے کیا سوجھی کہ مجھ سے پہلے جنت میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے؟ مجھ سے کہا جائے گا کہ یہ ایک خوب صورت بیوی تھی، اس کی یتیم لڑکیاں تھیں، اس نے اپنی ساری خوب صورتی ان لڑکیوں کی تربیت کی بھینٹ چڑھا دی، یہاں تک کہ لڑکیاں جوان ہو گئیں، الله تعالیٰ نے اس کے اس فعل کی قدردانی کی، اس کا نتیجہ آپ دیکھ رہے ہیں ۔ ( کنزالعمال) سب سے زیادہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جس بات کی تاکید فرمائی وہ بچوں کی تعلیم او ران کی تربیت ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اسلام بچوں کی جبری تعلیم کا بھی قائل ہے تو بے جانہ ہو گا، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر مسلمان کے لیے تحصیل علم کو فرض قرار دیا ہے۔ ( ابن ماجہ عن انس) ظاہر ہے کہ فرائض میں ضرورت بڑھنے پر جبر سے بھی کام لیا جاسکتا ہے ، امام بخاری  نے اپنی کتاب میں ایک عنوان کے تحت ثابت کیا ہے کہ پانچ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز ہونا چاہیے۔ (بخاری ، باب الاغتباط فی العلم والحکمة)

”تعلیم“ میں دین کی تعلیم بھی داخل ہے کہ بقدر ضرورت علم دین حاصل کیے بغیر نہ انسان اپنی دنیا کو بہتر بنا سکتا ہے اور نہ آخرت سنور سکتی ہے، اس لیے ایسے علم کا حصو لبھی ضروری ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی معاشی ضروریات کو پوری کرسکے اور ایک باعزت اور خود دار شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرنا اس کے لیے ممکن ہو، قرآن مجید نے اس کے لیے ایک جامع تعبیر اختیار کی ہے کہ اپنے آپ کو او راپنے اہل وعیال کو دوزخ سے بچاؤ ﴿قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً﴾․(التحریم:6) بچوں کو دوزخ سے بچانے کے لیے دین کی تعلیم تو ضروری ہے ہی، طریقہ معاش کی بھی تعلیم ضروری ہے ، تاکہ وہ جائز طریقہ پر اپنی ضروریات کو پوری کرسکیں اور غیر سماجی طریقہ اختیار کرنے پر مجبور نہ ہوں، بچوں کی تعلیم اسلام کی نگاہ میں کس درجہ اہم ہے ؟ اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ گو اصولی طور پر بالغ ہونے کے بعد بچوں کی کفالت باپ پر واجب نہیں، سوائے اس کے کہ وہ معذور ہو، لیکن اگر لڑکے حصول تعلیم میں مشغول ہوں اور والدین ان کے اخراجات ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، تو پھر ان کا نفقہ بھی واجب ہے ، اسی طرح فقہا نے طلبہ کے لیے زکوٰة کو جائز قرار دیا اور بعض اہلِ علم نے ان کو بھی قرآن مجید کے بیان کیے ہوئے مصارف زکوٰة ”فی سبیل الله“ کے زمرہ میں رکھا ہے، بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی ضروری ہے ، تربیت ہی دراصل انسان کو انسان بناتی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص نے اپنی اولاد کو اچھے اخلاق وآداب سے بہتر عطیہ نہیں دیا۔ ( ترمذی، باب ماجاء فی ادب الولد) اور ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بچوں کو تہذیب اور شائستگی سکھاؤ احسنوا أدبھم․ ( ابن ماجہ ، باب بر الوالد الخ) آپ صلی الله علیہ وسلم واقعی انسانی نفسیات کے عارف اوررہبر تھے اور ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں راہ نمائی فرمایا کرتے تھے، چناں چہ ایک موقعہ پر نہایت جامعیت کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بچوں کے ان حقوق کا ذکر فرمایا جووالدین پر ہیں، ارشاد ہوا:ساتویں دن بچہ کا عقیقہ کیا جائے، اس کا نام رکھا جائے اور نہلایا دھلایا جائے، تیرہ سال میں نماز اور روزہ کے لیے سر زنش کی جائے سولہ سال کی عمر میں باپ اس کی شادی کر دے پھر اس کا ہاتھ پکڑے ا ورکہے میں نے تجھے اخلاق سکھا دیے قد ادبتک تعلیم دے دی اور تمہارا نکاح کر دیا، میں الله کی پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ تو دنیامیں میرے لیے فتنہ کا یا آخرت میں عذاب کا باعث بنے۔ (مسند احمد، ابن حبان عن انس ) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اسوہ اور ارشادات کے ذریعہ ہمیں بچوں کی تعلیم وتربیت کے طریقوں سے بھی آگاہ فرمایا، اس سلسلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ بچوں کے مزاج اور موقع ومحل کو دیکھتے ہوئے کبھی نرمی اور کبھی سختی کا معاملہ کیا جائے بے جاتشدد اور ہر وقت سخت گیری فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچاتی ہے، اس لیے اصل میں بچوں کے ساتھ شفقت مطلوب ہے، حضرت انس  راوی ہیں کہ میں نے کسی شخص کو بال بچوں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ شفیق نہیں دیکھا ( مسلم)

ایک بار حضرت اقرع بن حابس  نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم حضرت حسین  کا بوسہ لے رہے ہیں، حضرت اقرع  نے کہا میرے دس بیٹے ہیں، میں نے کبھی ان کا بوسہ نہیں لیا! آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔آپ صلی الله علیہ وسلم کی شفقت ومحبت کچھ اپنے ہی بچوں کے ساتھ مخصوص نہیں تھی، بلکہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم بہت ہی شفقت اور بے تکلفی کا معاملہ فرماتے، جب سفر میں جاتے یا سفر سے واپس تشریف لاتے تو مدینے سے جو بچے آپ صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑنے یا آپ صلی الله علیہ وسلم کے استقبال کے لیے آگے تک جاتے آپ صلی الله علیہ وسلم ان کو اپنی سواری پر آگے پیچھے بیٹھا لیتے۔ بچوں کے ساتھ ہمیشہ بے احترامی او رحوصلہ شکنی کا رویہ بہتر نہیں، ان کے مزاج اور نفسیات کا لحاظ ضروری ہے، جہاں حد سے زیادہ سختی بچوں کی تربیت کے لیے مضر ہے، وہیں یہ بھی روا نہیں کہ جہاں تنبیہ اور ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت ہو وہاں بھی اپنے آپ کو مہر بہ لب رکھا جائے، اس سے بچوں کی تربیت نہیں ہو پاتی اور ان میں بد تہذیبی کا رحجان بڑھتا جاتا ہے۔ بعض بچوں میں اپنی ہر ضد کو پورا کرنے کا مزاج بن جاتا ہے ، یہ بات بچوں کے مستقبل کے لیے بہت ہی نقصان دہ ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے حسب ضرورت بچوں کی تنبیہ کا بھی حکم دیا ہے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بچے دس سال کے ہو جائیں او رنماز پڑھنے میں کوتاہی کریں تو ان کی کسی قدر سرزنش بھی کی جائے۔ (ترمذی:93/1) اسی لیے فقہا نے والدین کو بال بچوں کی اور اساتذہ کو طلبا کی مناسب حد میں رہتے ہوئے تادیب اور سر زنش کی اجازت دی ہے ، بچوں کے لیے دعا خیر بھی ان کا ایک حق ہے ،اپنے بچوں کے لیے بھی اور قوم کے بچوں کے لیے بھی، کیوں کہ دعا بہرحال اثر رکھتی ہے ، قرآن مجید میں بعض انبیاء کی دعائیں ذکر کی گئی ہیں، جن میں الله تعالیٰ سے اولاد کی صالحیت اور حق پر استقامت کا ذکر آیا ہے، اس سلسلہ میں مشہور محدث اورصاحب دل امام عبدالله بن مبارک  کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ اپنی ابتدائی زندگی میں گانے بجانے اور عیش وعشرت میں مست رہتے تھے، یہاں تک کہ شراب بھی منھ سے لگ گئی تھی، آپ کے والدین کو اس پر بڑی کڑھن تھی اور دن رات رو رو کر الله سے دعائیں کرتے تھے، اسی درمیان جب ایک دن عیش ونشاط کی بزم آراستہ تھی اور شراب کا دور چل رہا تھا کہ آپ کی آنکھ لگی گئی اور آپ  نے خواب میں دیکھا کہ ایک خوب صورت باغ ہے، جس میں ایک ٹہنی پر پرندہ بیٹھا ہوا ہے او اوروہ اس آیت کو پڑھ رہا ہے، ترجمہ: ” کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل الله کے ذکر سے پگھلیں اور اس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں۔“ (الحدیث:16) امام عبدالله بن مبارک بے چین ہو کر اٹھے، ان کی زبان پر تھا کہ خدایا!وہ وقت آگیا، پھر تو اسی وقت جام چکنا چور کر دیے، رنگین کپڑے اتار پھینکے، غسل کیا اور خدا کے حضور توبہ کی، یہاں تک کہ علم ومعرفت کے اُفق پر خورشید بن کر چمکے کہ شاید ہی کوئی محدث اور فقیہ ہو، جس نے ان کی علمی عظمت اور فضل وتقویٰ کا اعتراف نہ کیا ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ والدین کی دعا کا اثر تھا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ مشینی دور میں بچوں کو سرپرست اپنا وقت نہیں دے پاتے ،جو بچوں کے لیے سب سے اہم ضرورت ہے، وہ باپ اور بزرگوں کی سچی محبت سے محروم ہیں اور بچوں کی تربیت کے پہلو پر بے توجہی عام ہے ،کتابوں کی دکانوں پر ایسی کتابوں کی بھر مار ہے جس سے بچوں کے اخلاق بگڑتے ہیں ، لیکن ایسا لٹریچر مقدار اور معیار کے اعتبار سے بہت کم ہے، جو بچوں کی فطری او راخلاقی تربیت کا سروسامان ہو، دوسرے ذرائع ابلاغ بھی بچوں میں تعمیری رحجان پیدا کرنے کے بجائے تخریبی اور غیر اخلاقی میلان پیدا کرنے کا کام کر رہے ہیں ، اس لیے بچوں کا حق صرف یہ نہیں کہ ان کے لیے خورد ونوش کا انتظام کر دیا جائے ، بلکہ ان کے لیے اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ کو معلم اخلاق بنایا جائے اور لوگوں کو یہ بات سمجھائی جائے کہ بچوں کے لیے کمانا ہی سب کچھ نہیں، بلکہ بچوں پر اپنے وقت کا صرف کرنا بھی بنیادی اور اہم ہے اور ان کو اس سے محروم رکھنا ان کے ساتھ ناانصافی اور حق تلفی ہے #
        لے لے کے خدا کا نام چلاّتے ہیں
        پھر بھی اثر دعا نہیں پاتے ہیں
        کھاتے ہیں حرام لقمہ پڑھتے ہیں نماز
        کرتے نہیں پرہیز دوا کھاتے ہیں

Flag Counter