Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1436ھ

ہ رسالہ

11 - 20
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
طلاق رجعی کے بعد رجوع کرنے کاطریقہ
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آپ سے ایک مسئلہ کے حل کے لیے شرعی نقطہ نظر سے مشورہ درکار ہے، برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلّل جواب سے نوازیں: میری بیوی نے پنچائت بلائی او رکہا ( یہ رشتہ ختم کر دیں ) پنچائت کے روبرو میرے سسر نے میرے سامنے دو راستے رکھے: پنچائتمیں (طلاق مبارات) دے دو ورنہ عدالت سے لیں گے، فیصلہ انہوں نے کر لیا تھا مجھے یہ فیصلہ کرنے کے لیے ایک ماہ سوچنے کا موقعہ ملا کہ فیصلہ گھر میں کرنا ہے یا عدالت میں، پنچائت کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرے سسر کے کہنے پر ایک تحریر ہوئی، پنچائت گواہ ہے ، مضمون کے الفاظ میرے(سسر) کے منہ کے تھے، جب کہ قلم میرے ہاتھ میں دیا گیا، تحریر کے الفاظ کچھ اس طرح کے تھے:

میں مسمی (راشد اقبا ل ولد ملک آمان) نے اپنی بیوی مسماة (پروین اختر دختر گلزمان)، کو باہوش وحواس باہمی رضا مندی سے (پہلی طلاق دی، دوسری طلاق دی)پنچائتکے گواہوں کے دستخط موجود ہیں، 16-12-2012 کو تحریر ہوئی۔

نو دن بعد میرا اپنی بیوی کے موبائل فون پر رابطہ ہوا، وہ زبانی الفاظ یہ تھے: آج مورخہ25-12-2012 کو میں الله تعالیٰ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ 16-12-2012 کو جو تمہیں تحریری طلاق دی ہے میں اُس پر تم سے رجوع کرتا ہوں، میری بیوی کا جواب یہ تھا :کہ نماز پڑھ کر الله سے دعا کریں، اُس سے دور کچھ بھی نہیں۔

دوسری بار پھر (دوران عدت) موبائل فون پر رابطہ ہوا جس کی ریکارڈنگ موبائل میں محفوظ ہے” میں تم سے جوع کرتا ہوں، آج میں تم کو رکھتا ہوں“ جواب یہ تھا…… اچھا بس میرا نمبر ڈیلیٹ کردیں۔

گزشتہ حالات کی روشنی میں درج ذیلسوالات کے مدلّل جواب تفصیل سے دے کر مشکور فرمائیں:
1..رجوع بالقول میرا یہ زبانی رجوع کافی ہے یا گواہوں کا ہونا ضروری ہے؟
2..میری بیوی رجوع بالقول کے حوالے سے میرے عقد نکاح میں موجود ہے کہ نہیں؟

میرے سسر خود کو دین دار کہتے ہیں، مندرجہ ذیل سوالات کا جواب وہ درست فرمارہے ہیں:

نوٹ: میرے تحریر کردہ الفاظ (الفاظ کنایہ) نہیں تھے، مجھ سے صریح اور صاف الفاظ (دو الفاظ) ایک محفل میں تحریر کیے گئے ہیں۔

3..اگر اعتبار الفاظ کا ہے تو کیا میں رجوع کا حق رکھتا ہوں؟
4..رجوع کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ کیا رجوع میں میاں کہے کہ میرا رجوع ہے ؟ بیوی یا اُس کے والد صاحب اور پنچائت اس رجوع کو قبول کریں تو رجوع درست ہو گا؟
5..میری بیوی کا اور میرا دورانِ عدت رجوع بالقول اس کے والد صاحب کے علم میں نہیں، موبائل کی ریکارڈنگ کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ طلاق بائن ہے اور طلاق بائن میں رجوع نہیں ہوتا، طلاق بائن میں دورانِ عدت نکاح جدید ہوتا ہے او ربعد عدت طلاق مغلظہ خود بخود واقع ہو جاتی ہے، کیا ان کے الفاظ درست ہیں؟
6..کیا میں اپنی بیوی کی پنچائت والوں کو سچی گواہی کے لیے تین پتھر ہاتھ میں دے سکتا ہوں؟
7..تیسرا لفظ میں نے ابھی تک استعمال نہیں کیا، کیا میری بیوی دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟

جواب…(1۔5) طلاق کی تین قسمیں ہیں : ”رجعی“، ”بائن“ اور ”مغلظہ“

رجعی یہ ہے کہ صریح الفاظ میں ایک یا دو بار طلاق دی جائے، اس کا حکم یہ ہے کہ عدت ختم ہونے تک نکاح باقی رہتا ہے، اس مدت میں اگر شوہر چاہے تو رجوع کر لے، عدت کے اندر رجوع کرنے سے دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں پڑے گی، البتہ عدت کے بعد نکاح ختم ہو جائے گا، لیکن اگر دونوں نکاح کرنا چاہیں تو دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں ، مگر اس صورت میں صرف اتنی طلاقوں کا حق رہے گا جو باقی بچی ہیں ۔ رجوع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یا تو زبان سے کہہ دے میں نے رجوع کیا، یا یہ کہ میں نے طلاق واپس لے لی (گواہوں کا موجود ہونا مستحب ہے، لیکن ان کی غیر موجودگی میں بھی رجعت درست ہو جائے گی)، یا پھر بیوی کے ساتھ ہم بستری کرکے عملی رجوع کرے۔

طلاق بائن یہ ہے کہ کنایہ الفاظ کے ساتھ طلاق دی جائے، یعنی وہ الفاظ جو صریح نہ ہوں ، یا بائن جیسی صفت کے ساتھ طلاق دی ہو ، طلاق بائن میں طلاق دیتے ہی بیوی نکاح سے نکل جاتی ہے، نکاح ختم ہو جاتا ہے ،البتہ عدت کے اند اور عدت کے بعد دوبارہ تجدید نکاح ہو سکتا ہے۔

طلاق مغلظہ یہ ہے کہ تین طلاق دی جائے، یا طلاق بائن دیتے وقت تین کی نیت کی جائے، ایسی صورت میں نکاح مکمل ختم ہوجاتا ہے اورجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی اور اب صرف حلالہ شرعیہ کے بعدہی دوبارہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔

صورت مسئولہ اگر حقیقت پر مبنی ہے اور اس میں کسی قسم کی غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا، تو جان لیں کہ آپ کے زبانی رجوع کرنے سے رجعت ثابت ہو چکی ہے، آپ کی بیوی آپ کے نکاح میں موجود ہے، البتہ مستقبل میں آپ کو صرف ایک طلاق کا حق باقی ہے۔

6..اس کی ضرورت نہیں۔

7..جب آپ کی بیوی آپ کے نکاح میں ہے، تو وہ کسی اور سے نکاح نہیں کرسکتی۔

شوقیہ شکار کرنے کی شرعی حیثیت
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسائل کے بارے میں : مجھے شکار کرنے کا شوق ہے میں اس کے لیے باقاعدہ کتے پالتا ہوں اور ان کتوں کو تعلیم اور پریکٹس دیتا ہوں، جب شکار کا موسم ہوتا ہے تو ضروریات ِسفر اور کتے ساتھ لے کر دس پندرہ دن تک شکار کے مقام میں قیام کرتا ہوں میں اس کو عدی بن حاتم رضی الله عنہ کی سنت سمجھتا ہوں ،اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا شوقیہ طور پر شکار کرنا درست ہے؟ اور کیا اس کو سنت یا کم از کم مستحب سمجھا جاسکتا ہے؟ یہ بات واضح ہوکہ میں کوئی شکار ضائع نہیں کرتا۔

جواب… صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتا کسی شکار کو ضائع نہیں کیا جاتا ہے ، تو پھر شوقیہ شکارکرنا جائز ہے، لیکن اس کو سنت یا مستحب کہنا درست نہیں ،بلکہ مباح ہے، بشرطیکہ لہو ولعب کے لیے نہ ہو۔

ملکی کاغذات بنوائے بغیر گاڑی استعمال کرنے کا حکم
سوال… میں اپنے پیسوں سے کابل (افغانستان) میں ایک گاڑی خرید کر وہاں سے اپنے علاقے …(پاکستان) لایا، ابھی تک اس کے پاکستانی کاغذات نہیں بنوائے ،تو کیا میں وہ گاڑی اپنے علاقے میں چلا سکتا ہوں، جب کہ قریبی تھانوں والے کچھ نہیں کہتے ،کوئی روک ٹوک نہیں کرتے؟

جواب… چوں کہ وہ گاڑی آپ کی اپنی ملکیت میں ہے اور آپ اس کے واقعتا مالک ہیں، اس لیے اس کو استعمال کرسکتے ہیں، لیکن اس کا استعمال کرنا حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی ہے او رپکڑے جانے کی صورت میں عزتِ نفس پامال ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ پاکستانی کاغذات بنوانے سے پہلے اس کو استعمال نہ کریں۔

اہل میت کے یہاں تین دن تک کھانا لے جانے کو لازم سمجھنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ ہمارے ہاں جب کوئی میت ہو جاتی ہے، میت کی تدفین کے بعد لوگ مستقل طور پر تین دن تک میت کے گھر کھانا لے جانے کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس میں میت کے تمام اقارب بھی شریک ہوتے ہیں، اگر کوئی نہ کرے تو اس کو طعنہ دیا جاتا ہے ۔

کیا شریعت میں اس کی گنجائش ہے ؟ کیا مستقل طور پر تین دن تک کھانا لے جانا ضروری ہے ؟ کھانا نہ لے جانے والے کو طعنہ دینا، اس چیز کو اپنے اوپر لازم کرکے دین سمجھنا کس حد تک درست ہے ؟

قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب…واضح رہے کہ اہل میت کے پڑوسیوں اور دور کے رشتہ داروں کے لیے مستحب ہے کہ وہ ایک دن ایک رات کا کھانا تیار کرکے میت والوں کے یہاں بھجیں، ایک دن کے بعد دوسرے یا تیسرے دن کھانا لے جانے کو لازم اور دین سمجھنا بے اصل، خلافِ شرع اور بدعت ہے اور اسی طرح کھانا نہ لے جانے والے کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنانا بھی ہر گز مناسب نہیں، بلکہ سراسر جہالت ہے، اس سے مکمل اجتناب کیا جائے۔

عورت کا شوہر کے والدین کی خدمت کرنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام درج ذیل سوالات کے بارے میں:

اگر کوئی لڑکی شادی ہوکر ایسے گھر میں آئے جہاں اس کا خاوند اپنے ماں باپ ،بہن بھائیوں کے ساتھ اکٹھا رہتا ہو، تو اس صورت میں کیا از روئے شریعت لڑکی پراس کے خاندان کے مذکورہ لوگوں کی خدمت لازم ہے؟اگر نہیں تو خاوند زبردستی خدمت کرائے تو اس کا یہ فعل کیا زیادتی کے زمرہ میں نہیں آئے گا؟

جواب… بیوی اگر اپنی خوشی سے شوہر کے والدین ، بہن بھائیوں کی خدمت کرتی ہے، تو یہ بہت اچھی بات ہے اور بیوی کے لیے موجبِ سعادت ہے، لیکن یہ اخلاقی چیز ہے، شرعی نہیں، اگر بیوی شوہر کے والدین اور بہن بھائیوں کی خدمت نہیں کرنا چاہتی، تو شوہر کا شرعی قانون کی روسے بیوی کو خدمت کرنے پر مجبور کرنا ظلم ہے۔

بیوی کو ماں باپ کے گھر جانے سے روکنا
سوال…لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر جانا چاہتی ہے ،یا ماں باپ بلاتے ہیں تو خاوند اسے مختلف حیلے بہانوں سے ماں باپ کے گھرجانے سے روکتا رہتا ہے ،کیا اسے اس طرح کے عمل کی شریعت اجازت دیتی ہے؟ اگر نہیں تو کیا اس کا یہ عمل گناہ میں شامل ہو گا؟

جواب… والدین اگر ضعیف ہیں ، کمزوری کی وجہ سے بیٹی کے پاس نہیں آسکتے، تو اس صورت میں شوہر بیوی کو والدین کی ملاقات سے منع نہیں کرسکتا، ہاں اگر والدین تندرست ہیں، بیٹی کی خیر خبر لے سکتے ہیں، تو پھر بیٹی ہر وقت ان کی ملاقات کے لیے نہیں جاسکتی، بلکہ عرف ورواج کے مطابق ان سے ملاقات کی صورت اختیار کی جائے۔

دولہن کا بدھ کے دن گھر سے نکلنے کو منحوس سمجھنا
سوال…لڑکی شادی ہو کر خاوند کے گھر آئی تو اس کے گھر والے اسے بدھ کے دن گھر سے نہیں نکلنے دیتے، ان کے خیال میں بہو کا بدھ کے دن گھر سے نکلنا اس لڑکی اور گھر والوں کے لیے نقصان کا سبب بن سکتا ہے، کیا شریعتِ اسلامی میں اس طرح کا کوئی حکم ہے؟ اگر نہیں تو ان لوگوں کا یہ عمل شرک یااوھام پرستی میں شمار ہو گا؟

جواب… اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصوّر نہیں، یہ محض تو ہم پرستی ہے، حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدے کی تردید فرمائی گئی ہے، اس لیے کسی دن کو منحوس سمجھنا غلط ہے، نحوست اگر ہے، تو انسان کی اپنی بد عملی میں ہے۔

دولہن کو کالا اور نیلا کپڑا پہننے سے منع کرنا
سوال…لڑکی شادی ہو کر جس گھر میں گئی ان کے ہاں یہ بھی رواج ہے کہ دولہن ایسا لباس نہیں پہن سکتی جس میں کالا اور نیلا رنگ عیاں ہو، کیا شریعت میں اس طرح کا کوئی تصور موجود ہے؟ اگر نہیں تو اس طرح کا عقیدہ رکھنے والے صحیح مسلمان ہو سکتے ہیں؟

جواب شریعت اسلامی کے مطابق عنایت فرماکر مشکور فرمائیں۔

جواب… عورتوں کے لیے مختلف رنگ کے کپڑے پہننا جائز ہے اور یہ عقیدہ رکھنا کہ فلاں رنگ سے مصیبت وغیرہ آئے گی، بالکل غلط ہے، لہٰذا ایسا عقیدہ رکھنے سے توبہ کرنا ضروری ہے۔

دانتوں سے مسلسل خون آنے کی صورت میں روزہ او رنماز کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام اس مسئلہ سے متعلق کہ ایک آدمی کے دانتوں سے خون آتا ہے اور اس کی کوئی مقدار بھی متعین نہیں ہے، کسی وقت تھوڑا ہوتا ہے کہ اس کا رنگ تھوک سے مغلوب ہوتا ہے او رکسی وقت زیادہ آتا ہے کہ اس کا رنگ تھوک پر غالب ہوتا ہے اور اسی طرح سے اس کا کوئی وقت بھی متعین نہیں ہے ، نیند کی حالت میں بھی آتا ہے اور بیداری کی حالت میں بھی، گویا یہ دائمی مرض ہے، مگر کبھی کبھار ایسا دن بھی آجاتا ہے کہ جس میں بارہ گھنٹے تک خون بند رہتا ہے اور پھر دوبارہ اسی ترتیب سے شروع ہو جاتا ہے، یہ مرض کئی سالوں سے ہے، جس کا علاج بھی بہت کرایا گیا ہے ، مگر کچھ فرق نہیں ہے اور فی الحال اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس کا منقطع ہونا غیر ممکن ہے ، تاکہ ایسے وقت کا انتظار کیا جائے کہ جس میں قضاء کی جائے، اور بعض اوقات بیداری کی حالت میں بھی خون غیر اختیاری طور پر حلق سے نیچے اتر جاتا ہے۔

اس سلسلے میں بعض علماء سے زبانی رجوع کیا گیا او رمریض کے نماز، روزے سے متعلق حکم پوچھا گیا تو ان کی آراء مختلف سامنے آئیں: بعض نے فرمایا کہ وہ ہر نماز کے لیے علیحدہ وضو کرکے نماز پڑھے گا اور اس کے روزے بھی صحیح ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دانتوں سے نکلنے والا خون جسم کے اندر چلنے والے خون کی مانند ہے، جس طرح اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اسی طرح اس سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوتا اور بعض علماء نے فرمایا کہ روزے صحیح ہیں، مگر بیداری کی حالت میں حتی الامکان خون نگلنے سے پرہیز کرے اور نیند کی حالت میں خون اندر جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیوں مرض دائمی ہے اور نیند کی حالت میں وہغیر مکلف ہے او راکثر علماء نے یہ فرمایا کہ خون اندر جانے سے اس کے روزے فاسد ہو گئے ہیں، لہٰذا وہ ایسے وقت کا انتظار کرے کہ جس میں خون رک جائے اور پھر قضاء کر لے اور بعض نے یہ فرمایا کہ جب قضاء کے وقت کا میسر ہونا ممکن نہیں تو پھر فدیہ ادا کردے، ہاں اگر صحت میسر ہو جائے تو پھر قضاء بھی کر لے۔

اب حال یہ ہے کہ ان جوابات کے بعد مریض بہت تذبذب کا شکار ہے کہ وہ کس کی بات پر عمل کرے ،اور دوسری بات یہ کہ حوالہ اور دلیل بھی زبانی چوں کہ کوئی نہیں دیتا اس لیے اطمینان حاصل نہیں ہوا، لہٰذا گزارش ہے کہ قرآن وحدیث او رکتبِ فقہ کے حوالوں کے ساتھ مسئلہ کے صحیح حکم سے آگاہ فرماکر مشکور ہوں۔

جواب…صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص پر اگر ایک نماز کا وقت ایسا گزر گیا ہے کہ اس میں اسے خون مسلسل آتا رہا اور اسے اتنا وقت بھی نہ ملا کہ وہ اس خون کے رکنے کی حالت میں وضو کرکے نماز پڑھ سکے، تو وہ شرعاً معذور ہے، لہٰذا وہ ہر وقت کی نماز کے لیے نیا وضو کرکے اسی وقت کی فرض اور دیگر سنن ونوافل نمازیں پڑھا کرے، اس خون سے اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا، لیکن اگر کسی نماز کے پورے وقت میں اسے خون بالکل نہ آیا تو پھر وہ معذور نہیں رہے گا، اور اس خون سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔

اور روزے کی حالت میں اگر دانتوں سے خون نکل کر حلق سے نیچے اتر جائے اور وہ تھوک پر بھی غالب یا برابر ہو تو روزہ فاسد ہو جائے گا، اور صرف قضاء لازم آئے گی، البتہ اگر حلق سے نیچے اترنے میں شک ہو اور کسی طرف گمانِ راحج نہ ہو تو روزہ فاسد نہ ہو گا، اسی طرح اگر تھوک غالب ہو او ر خون کم ہو تب بھی روزہ فاسد نہیں ہو گا او راگر اکثر دانتوں سے خون آتا رہتا ہے اور وہ سونے کی حالت میں بلا اختیار حلق سے نیچے اتر جائے، تو عدم فساد کی گنجائش ہے، کیوں کہ اس صورت میں اس سے تحرز ممکن نہیں ہے ، تاہم اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ اگر روزے میں بلا اختیار خون حلق سے نیچے اتر جائے تو صحت کے بعد احتیاطاً اس روزے کی قضاء کرے۔

Flag Counter