نافرمان بیٹے کا حالت نزع میں کلمہ نہ پڑھنا
تحقیق: مولوی سرفراز خان لوخاڑی
متخصص فی علوم الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی
سند کے راوی فائد بن عبدالرحمن العطار أبو الورقاء کے متعلق ائمہ ٴ حدیث کا کلام:
اس روایت کا مدار اسناد فائد بن عبدالرحمن ہے، جس کے بارے میں محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں:
1..امیر المؤمنین امام بخاری رحمہ الله تعالیٰ کا کلام: امام بخاری رحمہ الله تعالی اپنی مایہٴ ناز کتاب ”التاریخ الکبیر“ میں لکھتے ہیں:منکر الحدیث ․(اکثر اوقات شدید جرح کا کلمہ)۔
امام بخاری کے قول ”منکر الحدیث“ کے متعلق علمی بحث
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ الله تعالیٰ جس راوی کے بارے میں ”منکر الحدیث، فرماتے ہیں ان سے روایت کرنا جائز نہیں ہوتا، جیسا کہ علامہ عبدالحئی لکھنوی المتوفی1304ھ رحمہ الله تعالیٰ”میزان الاعتدال“ کے حوالے سے لکھتے ہیں:”إن البخاری قال: کل من قلت فیہ: منکر الحدیث، فلا تحل الروایة عنہ․“
ایسا ہی حافظ محمد بن عبدالرحمن السخاوی المتوفی 902ھ رحمہ الله تعالی نے ”فتح المغیث بشرح الفیة الحدیث“ اور حافظ جلال الدین السیوطی المتوفی 911 رحمہ الله تعالی نے” تدریب الراوی فی شرح تقریب الناوی“ میں امام بخاری رحمہ الله تعالی کے اس قول کو نقل کیا ہے ۔
تاہم ممارست سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ امام بخاری رحمہ الله تعالی ایک راوی کے بارے میں ”منکر الحدیث“ کہتے ہیں لیکن اس راوی کے ضعف کی تلافی ہو جاتی ہے اور اس سے روایت لینا جائز ہو جاتا ہے ، لہٰذا امام بخاری رحمہ الله تعالی کے اس قول کو ان کے ایک دوسرے قول پر محمول کیا جائے گا، جس کو حافظ سخاوی رحمہ الله نے ”فتح المغیث“ میں نقل کیا ہے ۔
” لکن قال البخاری: کل من قلت فیہ منکر الحدیث ۔یعنی الذی أدرج فی الخامسة۔ لا یحتج بہ․“
امام بخاری جس راوی کے بارے میں ” منکرالحدیث“ کہیں، اس سے احتجاج نہیں کیا جائے گا، اب ان کا یہ قول عام ہو گیا، چاہے ایسا راوی ہو جس کے ضعف کی تلافی ہی نہ ہو سکتی ہو یا اس کی تلافی ہو سکتی ہو، لہٰذا امام بخاری رحمہ الله تعالی کے اس کلام کے ساتھ دوسرے محدثین کے کلام کوبھی دیکھا جائے گا، کہ دوسرے محدثین نے اس راوی کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے اور اس کے بارے میں کیا حکم صادر فرمایا ہے ؟ پھر اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا۔
ایک ضروری تنبیہ
آگے جانے سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جرح وتعدیل کے جتنے بھی مراتب اور صیغے ہیں یہ قاعدہ نہیں ہیں کہ آدمی ان مراتب اور صیغوں کو یاد کرکے راویوں پر حکم لگانا شروع کر دے، بلکہ ہر جگہ محدثین کی صنیع کو دیکھا جائے گاکہ محدث نے یہاں کون سا صیغہ استعمال کیا ہے؟ اس سے ان کی مراد کیا ہے ؟ ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی محدث کسی راوی کے بارے میں ” ضعیف“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کی مراد اس سے ”متروک“ ہوتی ہے۔ دوسری جگہ ان کے کلام سے اس خاص راوی کے بار ے میں”متروک“ کا لفظ مل جاتا ہے ، جیسا کہ نورالدین الہیثمی کی کتاب ”مجمع الزوائد“ میں اس کی بہت مثالیں مل جاتی ہیں ، حدیث اور علم حدیث اور محدثین کی صنیع سے ناواقف لوگ ایسے محدثین کی گرفت کرتے ہیں، اس سے ان کی جہالت کا اظہار ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر محدث نے اپنے ذوق سے الفاظ کا استعمال کیا ہے، بعد کے لوگوں نے تطبیق کے لیے یہ قواعد بنائے، الفاظ پہلے استعمال ہوئے ،قواعد بعد میں بنے ایسا نہیں ہوا کہ قاعدہ پہلے وضع کیا گیا ہو ، پھر ان محدثین نے اس قاعدہ کی بنیاد پر الفاظ کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہو ، جیسا کہ بعض لوگوں کی صنیع سے معلوم ہوتا ہے ،وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ہم نے یہ قواعد او رمراتب یاد کر لیے اور سمجھ گئے، لہٰذا ان قواعد کی بنیاد پر ہی حکم لگائیں گے۔ اس سے یہ لوگ بڑی بڑی غلطیوں کے شکار ہو گئے ہیں، جن کی تلافی کرنا ہی مشکل ہو گیا ہے اور دوسرے علوم حدیث سے ناواقف لوگ ان کی تحقیق پر اعتماد کرکے خوش ہو رہے ہیں کہ ہم قواعد کی روشنی میں حدیث پر حکم لگا رہے ہیں، حالاں کہ یہ لوگ علوم حدیث اور محدثین کے اسلوب وانداز سے بالکل کورے ہیں ۔ الله تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
تیسری بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کتب موضوعات والے مجتہدین حضرات کے تعامل کو دیکھا جائے گا، جیسا کہ امام ابن جوزی ، امام ذہبی ، حافظ ابن حجر۔ رحمہم الله تعالیٰ۔ وغیر ہم کہ انہوں نے اس راوی کی روایت کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے، بعض اورقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک راوی کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال سخت استعمال ہوئے ہوتے ہیں ، جس سے ان کی روایات کو قابلِ بیان بھی شمار نہیں کیا جاسکے گا، لیکن ان کتب موضوعات والے مجتہدین حضرات نے اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا ہو گا، لہٰذا طویل ممارست سے ہی اس کا پتہ چلتا ہے، ایک ، دو روایات یا ایک، دوراوی کی تخریج سے کبھی یہ ملکہ حاصل نہیں ہو سکتا، جیساکہ ایک دو کتابوں کو دیکھ کر راویوں کے حالات کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
بہرحال امام بخاری رحمہ الله تعالی نے فائد بن عبدالرحمن العطار کو ”منکر الحدیث“ کہا ہے، اب دوسرے محدثین کے اقوال کوبھی دیکھا جائے گا ، دوسرے محدثین نے ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا؟ اکثر محدثین نے ان کو متروک کہا ہے، چناں چہ ان کے بارے میں چند محدثین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔
2..حافظ ابو حاتم رازی او رحافظ ابو زرعہ رحمہما الله تعالیٰ کا کلام: حافظ أبوحاتم رازی کے فرزند حافظ عبدالرحمن اپنے والد محترم اور حافظ ابو زرعہ کا قول نقل کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:” سمعت أبی وأبا زرعة یقولان: فائد أبو الورقاء لایشتغل بہ، سمعت أبی یقول فائد ذاھب الحدث، لایکتب حدیثہ․“
میں نے اپنے والد محترم اور أبو زرعہ کو سنا فرما رہے تھے: فائد ابو الورقاء حدیث میں شغل نہیں رکھتے تھے او رایک دوسرے موقعہ پر میں نے اپنے والد محترم کو سنا ، فرمارہے تھے: کہ فائد”ذاھب الحدیث“ ہے اور ”لا یکتب حدیثہ“ کے درجہ میں ہے۔
مزید لکھتے ہیں :
”فائد بن عبدالرحمن العطار کی ابن ابی أوفی سے منقول تمام روایتیں باطل ہیں، ان کی کوئی اصل نہیں دیکھی جاسکتی ہے، گویا ان کی روایتیں حضرت ابن أبی أوفی رحمہ الله تعالی کی روایات کے مشابہ نہیں ہیں ، اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ اس کی اکثر روایتیں جھوٹ ہیں تو حانث نہ ہو گا!!“
3..امام محمد بن حبان بن احمد ابی حاتم بستی المتوفی354ھ رحمہ الله تعالیٰ کا کلام:
فائد ان لوگوں میں سے ہے، کہ مشاہیر محدثین سے منکر روایتیں بیان کیا کرتا تھا او رابن ابی اوفی سے معضلات روایت کرتا تھا، اس کی روایت سے استدلال کرنا جائز نہیں۔
4..حافظ شمس الدین ذہبی المتوفی748 رحمہ الله تعالی کا کلام:”ترکوہ“ (شدید جرح کا کلمہ)۔
5..حافظ نو رالدین علی بن أبی بکرا الہیثمی المتوفی807ھ رحمہ الله تعالیٰ کا کلام:آپ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد رقم طرازہیں:”رواہ الطبرانی وأحمد باختصار کثیر، وفیہ فائد أبو الورقاء، وھو متروک․“
امام طبرانی او رامام احمد بن حنبل رحمہما الله تعالی نے اس کو بہت اختصا رکے ساتھ نقل کیا ہے ، اس کی سند میں ایک راوی فائد ابو الورقاء متروک (شدید کلمہٴ جرح) ہے۔
6..حافظ ابن حجر عسقلانی المتوفی852ھ رحمہ الله تعالیٰ کا کلام:”فائد ھالک“
فائد ”ھالک“ (شدید جرح کا کلمہ) ہے۔
7..حافظ سیوطی رحمہ الله کا کلام:
فائد” متروک“ ( شدید جرح کا کلمہ) ہے۔
ان کے علاوہ دوسرے محدثین نے بھی اس کی تخریج کی ہے ، جس کی تفصیل حافظ جمال الدین ابی الحجاج یوسف مزی المتوفی742ھ کی مشہور کتاب ”تہذیب الکمال فی أسماء الرجال“ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
خلاصہٴ کلام:محدثین کے مذکورہ اقوال کی روشنی میں یہ ثابت ہو گیا کہ جب تک کوئی دوسرا معتبر طریق نہ ملے اس وقت تک اس روایت کو بیان کرنا درست نہیں ہو گا۔