میلاد النبی صلى الله عليه وسلم اور موسیقی
مولانا محمد عبدالحمید تونسوی
عید میلاد النبی یا جشن میلا دالنبی کے نام سے منعقد ہو نے والے پروگراموں میں لوگ اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے سازباجے اور موسیقی کے ناپاک اور شیطانی عمل کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے۔ فحش گانوں کے لہجے اور انداز میں نعت خوانی کے ساتھ قوالی وغیرہ کے عنوان سے موسیقی کے آلات بھی استعمال ہو ناشروع ہو گئے ہیں ۔ان نادانوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آقا ئے نام دار حضورصلى الله عليه وسلم توگانے اور موسیقی سے سختی کے ساتھ منع فرماتے تھے۔ آج نبی کریم صلى الله عليه وسلم کے نام پر منعقد کی جانے والی مجلسوں میں موسیقی کو جگہ دے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی کھلی مخالفت، بلکہ موسیقی کو روح کی غذا قرار دے کر اللہ تعالیٰ کے عذاب کو کھلی دعوت دی جاتی ہے۔ (نعوذ بالله تعالیٰ )
قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَ ہَا ہُزُواً أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ﴾․ ( لقمان:6 )
بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں، تاکہ بغیر سمجھے الله کے راستے سے گم راہ کریں اور اس کا مذاق بنائیں ، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے ۔
اس آیت میں ” لہوالحد یث “ (کھیل کی باتوں ) سے مراد گانا گانے کے آلات ہیں ۔ کئی صحابہ کرام ، تابعین عظام اور مفسرین کرام سے اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے ۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے:”قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم: ان الله عز وجل حرم القینة وبیعھا وثمنھا وتعلیمھا والاستماع الیھا، ثم قرأ:﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْث﴾․
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے گانے والی (عورت اور آلات ) کو حرام کیا ہے ، اس کے بیچنے کو بھی اور اس کی قیمت کو بھی اور اسے گانا سکھانے کو بھی اور اس کا گانا سننے کو بھی ۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ﴾
پہلے زمانے میں گانا صرف انسان کی زبان سے ہو تا تھا اور آج گانے کو مختلف چیزوں ( مثلا کیسٹ ،سی ڈی ،موبائل وغیرہ تمام الیکٹرونک آلات ) میں ریکارڈ کر لیا جاتا ہے۔ جن چیزوں میں گانا ریکارڈ کر لیا جائے وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں ۔ان کی خریدوفروخت اور ان سے گانا سننا گناہ ہے ۔
حضرت عبدالله بن مسعود سورہ لقمان کی مذکورہ آیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ”ہو والله الغناء“․( مستدرک حاکم : 3542 )
قسم الله کی! وہ ( یعنی لہو الحدیث ) گانا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت مجاہد اور حضرت عکرمہ وغیرہ سے بھی مذکورہ آیت کی یہی تفسیر منقول ہے ۔
احادیث مبارکہ: حضرت عبدالرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریروالخمروالمعازف․“ ( بخاری : 5590)
یقینا میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو زنا ، ریشم، شراب اور آلات موسیقی کو ( خوش نما تعبیروں سے ، جیسے آرٹ کلچر ، ثقافت وغیرہ) حلال کر لیں گے ۔
جو لوگ نعوذ بالله موسیقی کو روح کی غذا قرار دیتے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے نام پر اس کو کار خیر سمجھ کر اختیا ر کر تے ہیں، وہ بھی اس حدیث کی مذکورہ وعید میں داخل ہیں ۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یمسخ قوم من امتی فی آخر الزمان قردة وخنازیر، قیل یا رسول الله: ویشھد ون ان لا الہ الا الله وانک رسول الله ویصومون؟ قال نعم، قیل: فما بالھم یا رسول الله؟ قال یتخذون المعازف والقینات والدفوف، ویشربون الاشربة فباتواعلی شربھم ولھوھم، فاصبحوا قد مسخوا قردة وخنازیر․“ (حیلة الاولیا ء لابی نعیم الاصبھانی: 8)
آخری زمانے میں میری امت کے کچھ لوگوں کو بندراور خنزیر کی شکل سے مسخ کردیا جائے گا ، کہا گیا کہ اے الله کے رسول ! وہ لوگ الله کی توحید اور آپ کے رسول ہو نے کی گواہی دیں گے اور روزے رکھیں گے ؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جی ہا ں ۔ عرض کیاگیاکہ ا لله کے رسول ، ان کے کیا اعمال ہو ں گے ؟رسو ل الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ گانا گانے کے آلات اختیار کریں گے اور گانے والی ( عورتیں اور چیزیں ) رکھیں گے اور ڈھول اور دف رکھیں گے اور شرابیں پییں گے تو وہ شراب پی کر اور لہو ولعب کی حالت میں رات گزاریں گے ، پھر اس حال میں صبح کریں گے کہ ان کو بندر اور خنزیر کی شکلوں میں مسخ کردیا گیا ہو گا۔
موسیقی کو جائز، بلکہ ثواب سمجھنے والے نادان سوچ لیں کہ وہ کہیں الله کی پکڑ میں آکر بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ نہ کردیے جائیں ۔ اس حدیث سے تمام آلات موسیقی کا حرام ہونا ظاہر ہو ا ۔
حضرت جابر کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”نھیت عن صوتین احمقین فاجرین، صوت عند نغمة لھو ولعب ومزامیر الشیطان، وصوت عند مصیبة لطم وجوہ وشق جیوب․“ ( مستدرک حاکم : 6825)
میں نے دو احمق اور فاجر ( گناہ والی ) آوازوں سے منع کیا ہے ، ایک نغمہ کے وقت لہوو لعب اور شیطانی بانسریوں سے اور مصیبت کے وقت آوازسے اپنے چہرے کو پیٹنے اور اپنے کپڑے پھاڑ نے سے ۔
حضرت نافع کی روایت میں ہے :”ان ابن عمر سمع صوت زمارة راع، فوضع اصبعیہ فی اذ نیہ، وعدل راحلتہ عن الطریق، وہو یقول یانافع اتسمع؟ فاقول نعم․ فیمضی حتیٰ قلت لا․ فوضع یدیہ، واعاد راحلتہ الی الطریق وقال رأیت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم، وسمع صوت زمارة راع، فصنع مثل ہذا“ ( مسند احمد : 4535)
حضرت ابن عمر نے ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سنی تو اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں رکھ لیا اور اپنی سواری کو راستے سے ہٹالیا ( آواز سے دور ہو نے کی غرض سے راستے سے ہٹ کر چلتے رہے ) اور یہ کہتے رہے کہ اے نافع! کیا آپ کو آواز آرہی ہے ؟ میں نے کہا کہ جی ہا ں ! آپ نے یہ عمل برابر جاری رکھا ، یہاں تک کہ میں نے کہا کہ اب آواز نہیں آرہی تو آپ نے اپنے ہاتھ ہٹائے اور اپنی سواری کو راستے پر واپس لے آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سننے کے وقت اسی طرح کر تے ہو ئے دیکھا تھا ۔
غور فرمائیے ! حضور اکرم صلى الله عليه وسلم اورآپ کی اتباع میں صحابہ کرام تو ایک بانسری کی آواز آنے پر بھی کان بند فرمالیا کرتے تھے ۔ آج آپ صلى الله عليه وسلم کے نام لیوا آپ صلى الله عليه وسلم ہی کے میلاد کے نام پر کتنے موسیقی کے آلات استعمال کر تے ہیں ؟؟
حضرت عبدالله بن عمر و بن عاص سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” ان ربی حرم عليَّ الخمر والمیسر والکوبة والقنین، والکوبة الطبل․ “ ( السنن الکبریٰ للبیھقی :20994)
بے شک میرے رب نے میرے اوپر شراب، جوئے ، کوبہ اور گانا گانے کو حرام کیا ہے اور کو بہ سے مراد طبلہ ہے ۔
حضرت عائشہ کے بارے میں یہ واقعہ مروی ہے: ”اذ دخل علیہا بجاریة، وعلیہا جلاجل یصوتن، فقالت لا تدخلنھا علی، الا ان تقطعواجلاجلھا، وقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم یقول لا تدخل الملائکة بیتا فیہ جرس․“( سنن ابی داوٴد : رقم الحدیث 4231)
حضرت عائشہ کے پاس ایک بچی لا ئی گئی ، جس نے آواز والے گھنگھرو پہنے ہو ئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ اسے میرے پاس نہ لاوٴ ، جب تک کہ اس کے گھنگھرونہ کا ٹ دو ۔پھر فرمایا :” میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہو تے ،جس میں گھنٹی ہو ۔“
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ: ”الدف حرام، والمعازف حرام ،والکوبة حرام، والمزمار حرام․ “ ( السنن الکبریٰ للبیھقی : 21000)
دَف حرام ہے ، گانا گانے کے آلات ( موسیقی ) حرام ہیں ، طبلہ حرام ہے اور بانسری حرام ہے ۔
حضرت عائشہ کے بارے میں ایک تقریب کے حوالے سے یہ قصہ مذکور ہے کہ :” فمرت عائشة فی البیت، فراتہ یتغنی، ویحرک رأسہ طربا، وکان ذاشعر کثیر، فقالت اُف شیطان! اخرجوہ․ اخرجوہ․“ (الادب المفرد للبخاری :1247)
پس حضرت عائشہ اس گھر میں گزریں تو ا س آدمی کو دیکھا کہ وہ گانا گا رہا ہے اور اپنے سر کو مستی کے ساتھ حرکت دے رہا ہے اور اس کے بڑے بڑے بال تھے، تو سیدہ عائشہ نے فرمایا : اُ ف !یہ شیطان ہے، اسے باہر نکالو ، باہر نکالو ۔
آج بھی قوال اور گوئیے بڑے بڑے بال رکھتے ہیں ،ڈاڑھیاں منڈاتے ہیں ،نشہ کے عادی ہو تے ہیں اور دوران قوالی اپنے سر مستی سے ہلاتے ہیں جو کہ سیدہ عائشہ کے فرمان کے مطابق شیطان ہیں ۔
حضرت شریح فرماتے ہیں کہ: ”ان الملائکة لایدخلون بیتاً فیہ دف ․“ ( مصنف ابن ابی شیبہ : 26993)
فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہو تے جس میں دف ہو ۔
حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ : ”کان اصحاب عبدالله یستقبلون الجوار ی فی الازقة معھن الدفوف، فیشقونھا․ “ (مصنف ابن ابی شیبہ : 26995)
حضرت عبدالله بن مسعود کے شاگرد وں کو ( آتے جاتے ہو ئے ) راستوں میں ( چھوٹی ) بچیوں کا سامنا ہو تا تھا ، جن کے ساتھ دفیں ( طبلے وڈھولکیاں ) ہوا کرتی تھیں ، تو وہ ان کو پھاڑ دیا کرتے تھے ۔
( تلک عشرة کاملة)
فائدہ :”معازف “عربی زبان میں گانا گانے کے تمام آلات کو کہا جاتا ہے ، جس میں ڈھول ، بانسری وغیرہ سب داخل ہیں ۔ ”دف“اسے کہا جاتاہے جس کے صرف ایک طرف بجانے کی جگہ ہو تی ہے ۔” ڈھول “اسے کہا جاتا ہے جو دونوں طرف سے بجا یا جاتا ہے ۔ ”کوبہ“ طبلے کو کہتے ہیں ۔
ملحوظ رہنا چاہیے کہ مندرجہ بالا احادیث میں صراحتا گانا گانے کے آلات کا ذکر ہے، جس سے واضح ہو تا ہے کہ اگر خالی گانے بجانے کے آلات کو بھی استعمال کیا جائے اور اس کے ساتھ گانے والے کسی انسان کی آواز شامل نہ ہو تب بھی یہ ناجائز وحرام ہے ۔نیز گانے بجانے کے ناجائز ہونے پر ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک ، امام احمد بن حنبل ) کا اجماع ہے۔
دف سے متعلق ایک اشکال اور اس کا حل
بعض روایات میں نکاح کے موقع پر دف کے ذریعے سے اعلان کی اجازت ملتی ہے ۔تو بعض لوگو ں کو اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ دف بجانا صحیح ہے۔ مگر یاد رہے کہ گانا گانے کے آلات کے ناجائز ہونے، ڈھول اور دَف کے گانا گانے کے آلات میں داخل ہو نے اور خود دَ ف کے ناجائز ہو نے پر احادیث وروایات موجود ہیں، جو ہم نے نقل کر دی ہیں۔ جا ئز و نا جائز میں تعارض ہو نے کی صورت میں ناجائز کو ترجیح ہو اکر تی ہے ۔
دوسرے دَ ف کے جائز ہو نے کے سلسلہ میں بعض روایات ضعیف بھی ہیں ۔
آخری درجے میں اگر دف کا جائز ہونا بھی تسلیم کر لیا جائے تو وہ بھی کئی شرائط کے ساتھ مقید تھا ۔
مثلاً : ایک شرط یہ تھی کہ دف سادہ ہو ، اس کے ساتھ گھنگھرو اور گانا بجانے کا کوئی دوسرا آلہ استعمال نہ ہو ( جیساکہ پہلے زمانے میں سادہ دفیں ہواکرتی تھیں اور آج کل معاملہ اس کے برعکس ہے ۔
دوسری شرط یہ تھی کہ دف بجانے کا انداز سادہ ہو، یعنی اس میں کوئی خاص طرز اور دھن نہ لگائی جا ئے ( جیساکہ عشاق لوگ خاص طرز اور دھن کے ساتھ بجاتے ہیں ) بلکہ بغیر کسی طرزاور لَے کے اس کو چند مرتبہ بجالیا، جائے، جس کو پیٹنا اور مارنا کہا جاتا ہے ۔
تیسری یہ کہ اس کا نکاح وغیرہ کے موقع پر جائز ہو نا بھی خواتین کے ساتھ مخصوص تھا اور اس سے مقصود بھی ( نکاح وغیرہ کا ) اعلان تھا ، نہ کہ بذات خود اس کی آواز کا سننا، سنانا یا لطف انداز ہو نا ۔ آج کل پہلے زمانے کے مقابلے میں اعلان وشہرت کے دوسرے بے شمار جائز ذرائع موجود ہیں ۔ اس لیے اس دف کی بھی چنداں ضرورت نہیں ۔جہاں اس سے مقصود اعلان تھا، وہاں یہ بھی ضروری تھا کہ جتنی مقدار سے اعلان ہو جائے ، اس پر اکتفا کیا جائے ، نہ یہ کہ نکاح وغیرہ کے اعلان وعنوان سے گھنٹو ں تک دف اور ڈھول بجایا جائے ۔
چوتھی شرط یہ تھی کہ اس کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر (حمدونعت وغیرہ ) شامل نہ ہو ۔
ایک اہم شرط یہ بھی تھی کہ یہ کسی ناجائز چیز کا ذریعہ نہ بنے ۔
آج کل چوں کہ گانا گانے کا استعمال اور جہالت عام ہے، مذکورہ بالا شرائط کی رعایت بھی عام طور پر نہیں ہے ، اس لیے موجودہ حالات میں محققین نے اس کو مطلقاً ممنوع قرار دے دیا ہے ، کیوں کہ جب کسی مباح وجائز بلکہ مستحب عمل میں بھی مفاسد پیدا ہو جائیں ، تو وہ عمل جائز ومستحب سے نکل کر ناجائز کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے ۔( امدادالفتاویٰ: 279/2۔ اسلام اور موسیقی :215)
بہر حال موسیقی اور گانا گانے کے آلات کا استعمال ویسے ہی گناہ ہے اور میلاد النبی کے نام سے ذکر ونعت کے وقت اس طرح کے آلات کو استعمال کر نا اور بھی سنگین گناہ ہے ۔