Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1436ھ

ہ رسالہ

4 - 20
لغو یات میں انہماک، اللہ کی ناراضگی کی علامت

مولانا محمد حذیفہ وستانوی
	
اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا، البتہ دنیا میں اس کے ساتھ بہت سی ضرورتیں لگا دی ، مثلاً کھانا‘ پینا‘ سونا‘ شادی بیاہ کرنا وغیرہ اور اس کی آزمائش کے لیے بہت سے فتنے رونما کیے اور انسان کو اس بات کا مکلف کیا کہ وہ اپنے نفس سے جہاد کرکے اللہ کی عبادت میں اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو صرف کرے، البتہ دنیوی ضرورتوں میں بھی بقدر ضرورت مشغول ہوسکتا ہے اور ہر ایسے کام سے اجتناب کرے جو نہ عبادت ہو اور نہ دنیوی کسی ضرورت کا حامل ہو ،کیوں کہ قیامت کے دن حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے انسانوں کی موجودگی میں زندگی کا حساب لیا جائے گا، عبادت اور ضرورت میں صرف کئے گئے اوقات پر بازپرس نہ ہوگی کیوں کہ مقصد میں لگا رہا اور اس کے علاوہ زندگی کے قیمتی لمحات کو لغویات، بے سود اور بے فائدہ کام میں صرف کیے ہوں گے، اس پر بازپرس کے ساتھ ساتھ مواخذہ اور سزا بھی ہوگی۔

آج جس معاشرے میں ہم سانس لے رہے ہیں وہ دشمنوں کی سازشوں کی وجہ سے لغو یات میں انہماک کاگویا گہوارہ بن چکا ہے، لوگوں کی اکثریت لغو یات میں منہمک ہے۔ اپنی زندگی کی ساعتوں کو رائیگاں کرکے اپنے اوپر اللہ کے عذاب کو لازم کرنے پرتُلے ہوئے ہیں۔ اللہ ہی ہماری حفاظت فرمائے۔

عزیزو! ہم نے لغویات میں انہماک کے اس گناہ کو گناہ ہی سمجھنا چھوڑ دیا، حالاں کہ یہ بھی ایک بڑا گناہ ہے۔ تو آئیے کہ قرآن و حدیث نے لغویات سے ا جتناب پر کتنا زور دیا ہے، ہم اس سے واقف ہوں اور دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچنے کی تدابیر اختیار کریں۔ اللہ ہماری مدد فرمائے۔ آمین!

لغویات سے اجتناب پر قرآن کی تاکید
قرآن کریم کوئی معمولی کتاب نہیں، بلکہ انسانوں کے لیے دستور حیات ہے، جس میں انسان کو صحیح معنی میں انسان کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے کے طریقے بتلائے گئے اور ان تمام کاموں اور راہوں سے بچنے کی تلقین کی گئی جو یا تو انسان کی ذلت اور خسارہ کا باعث ہوں یا انسان کے لیے بے سود اور لایعنی ہوں۔

قرآن کریم نے پورے اہتمام کے ساتھ لغو یات سے اجتناب کی تعلیم دی ہے۔ قرآن کہتا ہے: ﴿قد افلح الموٴمنون الذین ہم فی صلاتہم خاشعون والذین ہم عن اللغو معرضون…﴾

قرآن کریم کی مذکورہ آیت میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں: تحقیق موٴمنین کامیاب ہوگئے وہ موٴمنین جو خشوع کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور جو لغو یات سے بالکلیہ اجتناب اور اعراض کرتے ہیں اور جو زکوٰة ادا کرتے ہیں۔

موٴمن کا عقیدہ ہے کہ اللہ مختار کل ہے، اس کے قبضہٴ قدرت میں سب کچھ ہے، یہاں تک کہ کام یابی اور کامرانی سے ہم کنار کرنا بھی اور ناکا می سے دوچار کرنابھی اور اللہ خود کام یاب انسان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے دو ارکان اسلام یعنی نمازاور زکوة کے درمیان لغویات سے اعراض کو کام یاب انسان کا وصف بتلارہے ہیں، تو آپ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ لغو یات سے اجتناب کتنی اہم شے ہے؛ گویا کامل موٴمن اور کامل انسان ہونے کی ایک نشانی نمازقائم کرنا ہے، تو دوسری نشانی اور علامت لغویات سے اجتناب ہے۔ اور اس کے بعد ادائیگی زکوٰة ہے۔ گویا سچا پکا موٴمن ہونے کے لیے جہاں نماز اور زکوٰة کا ادا کرنا ضروری ہے؛ وہیں لغو یات سے اجتناب بھی ازحد ضروری ہے۔ جب لغویات سے اجتناب اتنی بڑی چیز ہے تو اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ آخر لغو کہتے کس کو ہے؟ کیا کذب بیانی سے کام لینا لغو ہے؟ یا کسی کی غیبت کرنا یہ لغو ہے؟ یا گالی گلوچ کرنا یہ لغو ہے؟ نہیں نہیں!! یہ تو سب گناہ کبیرہ ہیں، جن پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔ تو معلوم ہوا کہ لغو کہا جاتا ہے ایسا کام اور کلام کو جس سے نہ کوئی دنیوی فائدہ ہو اور نہ ثواب ملتا ہو اور نہ کسی شر کا دفعیہ ہو۔

انسان جو گفتگو کرتا ہے وہ چار حال سے خالی نہیں۔
1..یا تو مکمل گفتگو خیر اور بھلائی پر مبنی ہوگی۔
2..یا مکمل گفتگو برائی پر مبنی ہوگی۔
3..یا کچھ بھلائی اور کچھ برائی پر مبنی ہوگی۔
4..یا ایسا کلام جو بالکل بے سود اور لغو یات پر مبنی ہوگا۔

ان چاروں میں سے صرف قسم اول انسان کے لیے دارین میں نفع بخش ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد الٰہی ہے:﴿ والذین لا یشہدون الزور واذا مروا باللَّغو مروا کراما﴾ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب لغویات سے گزرتے ہیں تو خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔

یہ عباد الرحمن یعنی اللہ کے خاص بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ کے خاص بندوں میں شمولیت کے لیے لغویات سے اعراض لازم ہے۔ آج ہمارا معاشرہ فلم ٹی وی سیریل وغیرہ بڑے شوق سے دیکھتا ہے، حالاں کہ شہادة الزور میں یہ بھی داخل ہے۔

﴿لاخیر فی کثیر من نجواہم﴾ بہت زیادہ سرگوشی میں کوئی فائدہ نہیں یعنی آدمی بے کار بیٹھا بیٹھا کاناپھوسی کرتا رہے۔ آج کل موبائل وغیرہ پر لغو لمبی لمبی گفتگو بھی اس میں شامل ہوسکتی ہے۔

﴿و اذا سمعوا اللغو اعرضوا عنہ﴾ اور جب وہ کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اعراض کرتے ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اس میں دلچسپی لیتے ہیں اورمنہمک ہوتے ہیں۔

﴿و لا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع و البصر و الفوٴاد کل اولئک کان عنہ مسئولا﴾۔ اور جس چیز کے بارے میں معلومات نہ ہو اس پر اصرار نہ کرو، اس لیے کہ قوت شنوائی، قوت بصارت اور قوت تدبر و تفکر کے بارے میں بھی بازپرس ہوگی یعنی جو لغو یات دیکھوگے، سنوگے اس کا محاسبہ ہوگا۔

﴿ما یلفظ من قول الالدیہ رقیب عتید﴾۔ انسان جو بھی بات کرتا ہے اس کو ایک فرشتہ ریکارڈ کرتا ہے، گویا ہماری گالیاں اور لغو کلام بھی اللہ تعالیٰ ریکارڈ کروا رہے ہیں اور ہم اس سے غافل ہیں۔

احادیث اور لغو یات
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ․(مسلم) اچھے مسلمان ہونے کی ایک علامت لایعنی چیزوں سے اجتناب ہے ۔ گویا لایعنی میں انہماک یہ ایک اچھے مسلمان کا وصف نہیں ہے۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ان اللہ کرہ لکم ثلاثا: قیل وقال، واضاعة المال وکثرة السوال․(بخاری) اللہ نے ہمارے لیے تین چیزوں کو ناپسند کیا: زیادہ گفتگو، مال کو ضائع کرنا اور زیادہ سوالات کرنا۔ گویا لغو کلام کرنا اللہ کو ناپسند ہے۔

حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ما النجاة؟ تو آپ نے فرمایا: امسک علیک لسانک ولیسعک بیتک، و ابک علی خطیئتک․ (ترمذی)نجات کیسے ممکن ہے؟ تو فرمایا: اپنی زبان پر قابو رکھ اور اپنے گھر کا کھوٹا بن جا، یعنی زیادہ اختلاط نہ کر، اور اپنے گناہوں پر رو۔

تو معلوم ہوا کہ نجات کے لیے لغویات سے اجتناب ضروری ہے۔

ایک حدیث میں ہے:”لا یستقیم ایمان عبد حتی یستقیم قلبہ، ولا یستقیم قلبہ حتی یستقیم لسانہ․“کسی بندے کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک اس کا دل نہ سدھر جائے اور دل اس وقت صحیح راہ نہیں پاسکتا جب تک زبان درست نہ ہو جائے۔ (مسند احمد)

ایک عجیب غریب حدیث پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، حضرت کعب ابن عجرہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میری والدہ نے کہا: ہنیئا لک الجنة․ تجھ کو جنت مبارک ہو۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا اور کہا: من ہذہ المتألیة علی اللہ؟ یہ اللہ پر زور زبردستی کرنے والی کون ہے؟

حضرت کعب نے کہا میری والدہ ہے تو آپ نے کہا: ما یدریکِ یا ام کعب؟ لعل کعبًا قال ما لا ینفعہ، ومنع ما لا یغنیہ۔ اے ام کعب ! تجھے کیا پتا کہ کعب نے کوئی ایسی بات کہی ہو جو بے سود ہو یا کسی ایسی چیز سے روکا نہ ہو جس کی اس کو ضرورت نہ ہو۔ (طبرانی، مجمع الزوائد)

میرے مسلمان بھائیو! ذرا غور کروحضرت کعب ابن عجرہ جیسے صحابی کے بارے میں آپ صلى الله عليه وسلم  فرمارہے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس نے کوئی لایعنی بات کی ہو یا لایعنی کام کیا ہو جس کی وجہ سے جنت میں نہ جاسکے۔ معلوم ہوا کہ لایعنی گفتگو اور لایعنی میں انہماک جنت سے محرومی کا سبب بن سکتا ہے۔ اللہم احفظ

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں:
”من علامة إعراض اللہ تعالی عن العبد ان یجعل شغلہ فی ما لا یعنیہ خذلانا من اللہ“۔

اللہ بندہ سے ناراض ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اللہ اس بندے کو لایعنی کاموں میں لگا دیتا ہے اس سے ناراض ہونے کی وجہ سے ۔گویا لایعنی میں انہماک یہ بھی ہمارے گناہوں کی سزا ہے، لہٰذا سب سے پہلے ہمیں اپنے گناہوں سے توبہ کرنی ہو گی۔ تب اللہ ہم سے خوش ہوں گے اور جب راضی ہوں گے تو لایعنی سے ہماری حفاظت فرمائیں گے۔

خلاصہ یہ کہ آج پوری دنیا لایعنی میں مشغول ہے۔ اس کا مطلب ہماری اکثریت سے اللہ ناراض ہے، لہٰذا اے لوگو! خدارا اللہ کو راضی کر لو اورآخرت کی تیاری میں لگ جاوٴ ۔ اللہ ہمیں توفیق سے نوازے۔آمین!

Flag Counter