ترقی و بقاء کی ضمانت اعتدال
محترم محمد قاسمی پرتاب گڑھی
دنیا میں جتنی بھی چیزیں موجودہیں؛ان کی حفاظت وبقا کا مدار اعتدال وتوسط پر ہے،اگر وہ چیز حد اعتدال سے آگے بڑھتی ہے یا پیچھے ہٹتی ہے ؛تو درحقیقت وہ اپنی ہلاکت کی طرف پیش قدمی کررہی ہوتی ہے،مثلاً: کوئی مشین اپنی انتہائی مدت( Expire Date)تک اسی وقت چل سکتی ہے؛جب کہ اسے اس کے ”ہارس پاور“کے مطابق چلایا جائے ۔ قوت سے بڑھ کراگر اس کو استعمال کیا جائے تووہ بہت جلد خراب ہوجاتی ہے ،اسی طرح اس کو اگر نہ چلایا جائے یا مطلوبہ مقدار سے کم بجلی فراہم کی جائے ؛تب بھی وہ مشین خراب ہوجاتی ہے۔یہی معاملہ انسان کا ہے ،اگر وہ زیادہ کھالے؛ تو بیماری میں مبتلاہوجاتا ہے ۔اسی طرح اگروہ ضروری مقدار سے کم کھائے ؛تب بھی پریشانی ومضرت کا اندیشہ ہوتا ہے ۔انسان کے جسم میں نمک اورشکر دونوں چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ؛لیکن اگر شیرینی میں اضافہ اورنمک میں کمی ہوجائے تو شوگر کی بیمار ی ہوجاتی ہے؛ ایسے ہی اگر نمک میں اضافہ اورشکر میں کمی ہوجائے ؛تو بلڈپریشر بڑھ جاتا ہے ۔البتہ اگر یہ دونوں مادے معتدل ومتوسط ہوں،یعنی نہ کم ہوں نہ زیادہ تو کہاجاتاہے ؛طبیعت ”نارمل“ ہے۔ طبیعت کے نارمل رہنے ہی کانام تن درستی ہے ؛جو زندگی اوربقا کی علامت ہے۔ معلوم ہوا کہ زندگی اوربقاء کے لیے چیزوں کا نارمل ومعتدل ہونا ضروری ہوتا ہے۔اگر کمی بیشی ہوئی تو اس سے اختلال پیداہوتا ہے اور طرح طرح کے امراض جنم لیتے ہیں؛جوبالآخرہلاکت کا سبب بنتے ہیں۔
غیر معتدل راہ کیوں؟
حضرت انسان کو خالق کائنات نے عقل جیسی بیش بہانعمت عطا فرمائی ہے ؛جس سے وہ زندگی کے ہرموڑ پر ”نارمل اورمعتدل راہ“ اختیار کرلیتا ہے اوربے عتدالی کی ہلاکتوں اور تباہیوں سے محفوظ ومامون رہتا ہے۔ مگر چوں کہ عقل کے ساتھ انسان کے اندر قوت شہوانیہ وقوت غضبیہ بھی ہے، یعنی خواہشات کو پورا کرنے کی طاقت اوراس کے حصول میں رکاوٹ بننے والی چیز کو ختم کردینے اور غصہ کی وجہ سے چیرپھاڑڈالنے کی طاقت۔اسی خواہش اور غضب کی وجہ سے انسان عقل کی روشنی میں جانے والی نارمل اورمعتدل راہ سے ہٹ کر بے اعتدالی کی پگ ڈنڈیوں پر چلنے لگتا ہے ۔غصہ اورخواہشات کی وجہ سے اس کی عقل مغلوب ہوجاتی ہیں اور وہ بے اعتدالی کا خوگربن جاتاہے۔جس کی وجہ سے اس کی زندگی کا سفر ہلاکت خیزتباہی پر منتج ہوتا ہے۔وہ کام یابی حاصل کرنا چاہتا ہے ؛نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔وہ لوگوں میں اپنی تعریف وتوصیف سننا چاہتاہے ؛لوگ اس کی برائیاں بیان کرتے ہیں۔وہ مال واولاد اور دولت وحکومت کا استحکام چاہتاہے؛لوگ اس کے برے کردار سے تنگ آ کربغاوت پر اتر آتے ہیں؛جس کی وجہ سے مال واولاد ضائع اورسلطنت وحکومت ختم ہوجاتی ہے۔اصل میں یہ اس کی بے اعتدالیوں کا نتیجہ و خمیازہ ہوتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں لوگ نہ صرف بے اعتدالی کے خوگر بنے ہوئے ہیں؛بلکہ عالمی پیمانے پر کوشش کررہے ہیں کہ انسانی زندگی کے ہر نشیب کو فراز اورفراز کو نشیب بنادیا جائے۔
طلب حقوق کی تحریکیں
چناں چہ اس کے برے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔آج خانگی اورداخلی معاملات سے لے کر انسا ن کے خارجی اورمعاشرتی تمام معاملات اس حد سے تک بگڑچکے ہیں کہ لوگ خودکشیاں کررہے ہیں،وہ زندگی سے ہار چکے ہیں۔ان کو زندگی سے بہتر موت نظرآتی ہے ۔بیوی شوہرسے پریشان ہے ؛تو شوہر بیوی سے نالاں ۔ماں باپ اولاد سے پریشان ہیں تواولاد ما ں باپ سے خفا۔ملازم آقا سے پریشان ہے تو آقاملازم سے۔حاکم محکوم سے پریشان تو محکوم حاکم سے ناراض۔شاگر د استاذسے پریشان تو استاذ شاگردوں سے حیران ۔رشتہ دار ناتے داروں سے پریشان تو ناتے دار اعزہ واقارب سے تنگ ؛غرض کہ ہرطرف ایک ہاہاکار، طوفان اورہنگامہ مچاہوا ہے،ہرسویہی آواز سنائی دیتی ہے کہ ہمارے حقوق سلب کیے جارہے ہیں،ہمیں جو حقوق ملنے چاہیے ؛وہ ہمیں دست یاب نہیں۔چناں چہ حقوق کے مطالبہ کے لیے نئے نئے ناموں سے تنظیمیں اور کمیٹیاں تشکیل دی جارہی ہیں،طلبِ حقوق کے لیے خصوصی دن مثلا:”مَدَرڈے فادَر ڈے ،چلڈرن ڈے “وغیرہ منائے جارہے ہیں؛تاکہ لوگوں کے کھوئے ہوئے حقوق انہیں دلوائے جائیں،مگر صورت حال یہ ہے کہ :
”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“
جس قدر طلب ِحقوق کی تنظیمیں اور تحریکیں چل رہی ہیں؛ان سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ سلب حقوق کی وارداتیں انجام پزیرہورہی ہیں،آئے دن ناحق قتل ،ظلم ،بے جا زیادتی اور خودکشیوں کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔تمام حادثات کی تہہ میں ناانصافی،غلط روش اور بے جازیادتیوں کے عوامل ہی کارفرماہوتے ہیں۔غرض کہ یہ انجمنیں اور تحریکیں بھی انسانی سماج اور معاشرتی زندگی میں امن وسکون کی فضا قائم کرنے میں ناکام نظرآرہی ہیں،ا ن سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوپارہے ہیں؛جن کے لیے ان کا قیام عمل میں آیا۔
ناکامی کی وجہ
صحیح بات تو یہ ہے کہ ان انجمنوں یا تحریکوں سے قیام امن اور پرسکون زندگی کی توقع رکھنا ہی فضول ہے ؛چوں کہ اگر آپ ان انجمنوں اور تحریکوں کے طریقہ کار اور طرز عمل کا بغور جائزہ لیں تو آپ خودفیصلہ کرلیں گے کہ ان کے ذریعہ امن قائم ہوہی نہیں سکتا ؛کیوں کہ یہ انجمنیں خود قانون عدل کے خلاف ہیں،ان میں صرف طلبِ حقوق کے” گُر“ سکھائے جاتے ہیں اوراس کے لیے آوازیں اٹھائی جاتی ہیں۔وہاں ادائے حقوق اوراپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی تعلیم نہیں دی جاتی؛جو درحقیقت انہی سابقہ خواہشات کی یک طرفہ تکمیل کے حوالہ سے طلب میں ایک نئے عنوان کے اضافہ کے سوا کچھ نہیں؛ لہٰذا ان سے دنیا میں امن وسکون کی فضا قائم ہونے اور معاشرہ میں اطمینان وراحت کی ہواچلنے کی توقع رکھنااحمقوں کی جنت ہے ، اس طرح کی انجمنوں سے صرف اتنا ہوا کہ بس انھوں نے معاشرہ کو ”بارش سے بھگا کر پرنالے کے نیچے لاکھڑا کردیا“۔
درست علاج
آدمی اگر کسی مرض میں مبتلاہو اوراس کی وجہ سے اسے تکلیف ہو، پھر وہ راحت کے لیے ایسی دوا کا انتخاب کرے؛ جو مرض میں مزید اضافہ کاسبب بنے تو اسے راحت نہیں مل سکتی،وہ سکون کی نیند نہیں سو سکتا ۔راحت تواسی وقت مل سکتی ہے ؛جب کہ نظام جسم کو نارمل رکھنے اوردوران خون کو معتدل رکھنے کی دوائیں کھائے۔مگرہرچیز کو” نارمل“ اور”معتدل“ رکھنے کی بابت اس کا ایک خاص طریقہ وطرز ہوتا ہے ؛اس کی تعیین ہرکس وناکس نہیں کرسکتا ،مثلاً: مشین کو کس طرح چلایا جائے کہ وہ طرز اس کے حق میں نارمل ہو؟ یہ بات اس کمپنی کی ہدایات (Directions)سے معلوم ہوگی؛ جہاں وہ بنی ہے۔اسی طرح انسان اپنے معاشرہ اورخاندان کے ساتھ کون سا ”رَویہّ“ اور”طرز “اپنا ئے کہ وہ اس کے لیے اعتدال اورتوسط کا باعث بنے؛تاکہ اس میں محبت والفت کے پھول کھِلیں اوریگانگت وانسانیت کی جڑیں مضبوط ہوں ؛اس کی جانب راہ نمائی وہی ذات کرسکتی ہے؛جس نے انسان کوبنایا اوراس کووجود کی بے بہا دولت سے سرفراز فرمایا ، چناں چہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿إنَّ اللّٰہَ یَامُرُبِالْعَدْلِ وَالإحْسَانِ وَإیْتَاءِ ذِی الْقُربٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْي﴾․ترجمہ:اللہ تعالی انصاف ،احسان اوررشتہ داروں پرخرچ کرنے کا حکم دیتے ہیں اوربے حیائی ،غلط کام اورظلم سے روکتے ہیں۔(سورة النحل )
اس آیت کے اندرباری تعالی نے انسانیت کو باقی رکھنے اور معاشرہ کو نارمل انداز پر چلانے کے لیے تین کام کرنے کا حکم دیا ہے اورساتھ ہی تین چیزوں سے منع فرمایا ہے ۔ انصاف کرنے،احسان کرنے اور رشتہ داروں پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ،بے حیائی، غلط کام اورظلم سے منع کیا ہے ۔یہ کل چھ کام ہیں، انصاف ،احسان اوررشتہ داروں پرخرچ کرنا ،یہ کرنے کے تین کام ہیں اوربے حیائی ،غلط کام اورظلم بچنے والے امور ہیں۔ لوگ اگران چھ امور کے خوگر ہوجائیں اوراپنے آپ کو ان کا مکلف بنالیں تو یہی دنیا ان کے لیے جنت نشاں ہوجائے گی، خاندان ،معاشرہ وقبیلہ ہر طرف امن ہی امن ہوگا اورسکون کا دوردورہ ہوگا،کسی کو کسی سے شکایت نہیں ہوگی ۔
اعتدال کے فوائد
آیت کے اندر ہرمعاملہ میں عدل وانصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ عدل نام ہے برابری کا ۔اسی بات کو حدیث شریف میں سمجھایا گیا ہے کہ” اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو؛جو اپنے لیے پسندکرو“۔جب آدمی ہر معاملہ میں دوسرے کے لیے وہی پسند کرے گا ؛جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ؛تو کسی کوکسی سے شکایت کا موقع ہاتھ نہیں آئے گااور نہ کوئی کسی سے بغض وحسد اور کینہ رکھے گا، خصوصاً جب کہ عدل کے ساتھ احسان کا بھی حکم ہے، یعنی صرف انصاف پر ہی اکتفانہ کیاجائے؛بلکہ اگر” گیند اپنے پالے میں ہو“ اوراختیارات اپنے ہاتھ میں ہوں تو دوسروں کے ساتھ عدل سے ایک قدم ذرا آگے بڑھ کر” احسان “کا معاملہ کیاجائے ،مثلا:ہم اگر آقاہیں توعدل یہ ہے کہ ملازم کو بروقت مزدوری دیں،لیکن احسان یہ ہے کہ واجبی مزدوری سے بڑھ کردیں۔ایسے ہی اگر ہم ملازم ہیں؛تو عدل یہ ہے کہ ڈیوٹی مکمل طور پر انجام دیں؛لیکن احسان یہ ہے کہ ڈیوٹی سے ذراایک قدم آگے بڑھ کر کچھ اورکام بھی کردیں۔رشتہ داروں اور عزیزوں کو چوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے جلد شکایت ہوجاتی ہے اوروہ اپنے دل میں خفگی رکھتے ہیں؛جو آگے چل کر حسد اور کینہ کی صورت میں تبدیل ہوجاتی ہے ؛اس لیے ان کے بارے میں حکم ہے کہ ان کے ساتھ صرف انصاف اوراحسان ہی پراکتفانہ کیا جائے ؛بلکہ ان پر بلامعاوضہ مال خر چ کیاجائے،اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں ان کا حصہ لگایا جائے۔انسان کی فطرت ہے کہ” جس کی کھائے ؛اس کی گائے “؛اس لیے سب آپ کی تعریف کریں گے ،اب اضافہ صرف آپ کی محبت ہی میں نہیں؛ بلکہ آپ کی قوت وشوکت میں بھی ہوگااورتمام لوگ آپ کے مد مقابل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑے ہوں گے ۔
حق دینے سے دنیا میں امن قائم ہوگا
غورکیجیے! آیت کریمہ میں روئے سخن طلب حقوق کی طرف نہیں؛بل کہ ادائے حقوق کی جانب ہے ،لوگوں کو ادائے حقوق کی جانب متوجہ کیاجارہا ہے ،ہرایک سے مطالبہ ہے کہ وہ اپنے حقوق اداکرے۔ جب ہر آدمی اپنے حقوق اداکرے گا تو تمام لوگوں کو ان کے حقوق از خود مل جائیں گے ، حقوق طلب کرنے اوراس کے لیے تگ ودو کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی ۔اب کسی کو کسی سے نہ شکایت ہوگی اورنہ کوئی کسی سے بغض وعداوت رکھے گا۔ سماج اورمعاشرہ میں امن وامان کا دوردورہ ہوگا۔ہر شخص سکون واطمینا ن کی زندگی گزارے گا۔ عدل وانصاف کرنے سے آدمی کو کام یابی وکامرانی حاصل ہوتی ہے،احسان کرنے سے اس کا نام روشن ہوتا ہے ،لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اوررشتہ داروں پر خرچ کرنے سے طاقت وقوت میں اضافہ ہوتاہے۔ اس طرح اس کو دنیا کی تمام خوشیاں بیک وقت حاصل ہوجاتی ہیں ۔
بے اعتدالی کے نقصانات
حالاں کہ انہی خوشیوں کے حصول کے لیے آدمی جب غلط قدم اٹھاتا ہے تو وہ خودبھی پریشان ہوتا ہے اوراللہ کی مخلوق کو بھی پریشان کرتا ہے ،معاشرہ میں افراتفری پھیلتی ہے اورملک میں انارکی کی فضاہم وار ہوتی ہے اوربالآخر لوگ آپس میں لڑبھڑکر ہلاک وبرباد ہوجاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے خواہش کی تکمیل کے لیے بے حیائی کرنے ،غلط کام کرنے اورظلم کرنے سے منع کیا ہے ۔چوں کہ آدمی بے حیائی ،فحش کاری و بدکرداری کرتا ہے تواس کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہوتا ہے،زندگی کے میدان میں اسے ناکامیوں ورسوائیوں کا سامنا ہوتا ہے ۔غلط کام کرتا ہے تو لوگ اس کی برائیاں کرتے ہیں اور ظلم کرتا ہے تو لوگ اس کے خلاف بغاوت پراتر آتے ہیں۔اس طرح وہ دنیا وآخرت کی تمام ناکامیوں ونامرادیوں کے ساتھ رخصت ہوجاتا ہے اورپوری قوم کو تباہ وبرباد کرکے چھوڑتا ہے۔
عدل واحسان کام یابی کی کنجی
خلاصہ کلام یہ کہ جو قوم عدل واحسان کی خُواپنائے اوراعزہ واقربا پر خرچ کرنے کی عادت ڈالے،بے حیائی ،غلط روش اورظلم وتعدی سے بچے؛اس کو نہ صرف دنیا میں کام یابی وکامرانی حاصل ہوتی ہے ؛بلکہ وہ خود بھی امن وسکون سے رہتا ہے اوردوسرے لوگ بھی راحت کی سانس لیتے ہیں، خوش حالی آتی اورلوگ مل جل کر اپنی قوت میں اضافہ کرتے ہیں اور دنیاکو اپنے کردارسے مسخر کرلیتے ہیں،دوسری قومیں ان کی زیر نگین رہ کرخوش ہوتیں اورچاردانگ عالم میں اس کی فتح مندیوں وکامرانیوں کا چرچاہوتا ہے۔ماضی میں مسلمانوں کے پاس یہی وہ”دولت “ تھی ؛جو اب نایاب ہے؛اسی ہنر کی وجہ سے انھوں نے سارے عالم پر حکم رانی کی اوردنیا کو جنت نشاں بنادیا تھا،آج پھراسی طرز کو اپنا نے کی ضرورت ہے #
سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا