Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1436ھ

ہ رسالہ

6 - 20
حیات شہید اور انبیا علیہم السلام

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

اشکال
اس حدیث پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ معراج کی رات آپ صلی الله علیہ وسلم نے تمام انبیاعلیہم السلام کی بیت المقدس میں امامت کرائی تھی، پس یہ حدیث اس کے خلاف ہوئی، کیوں کہ اس حدیث سے حضرت موسیٰ عليه السلام کا اسی رات قبر شریفہ میں موجود ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ ”وصلاتہم فی اوقات مختلفة، وفی اماکن مختلفة لایرد، العقل، وقد ثبت بہ النقل، فدل ذالک علیٰ حیاتہم“․( فتح الباری، ج6، ص:488، دارالمعرفة بیروت،یعنی عقل انبیا علیہم السلام کے مختلف اوقات میں مختلف جگہوں میں نماز پڑھنے کی تردید نہیں کرتی اور یہ امر نقلاً ثابت ہے۔)

4..آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا دنوں میں سب سے زیادہ افضل جمعہ کا دن ہے۔ پس اس دن مجھ پر خوب کثرت سے درود پڑھا کرو، کیوں کہ تمہارا سلام مجھ پر پیش کیا جائے گا، اس پر صحابہ نے عرض کیا:” کیف تعرض صلاتنا علیک وقد ارمت…؟ قال: ان الله تبارک وتعالیٰ حرم علی الأرض أجساد الانبیاء صلى الله عليه وسلم“․ (سنن نسائی،باب اکثار الصلاة علی النبی، 3/91، مکتبة المطبوعات رقم، 1374، اسی طرح دیکھیے سنن ابن ماجہ، رقم:1085،20/186)

”یعنی صحابہ نے عرض کیا کہ ہماراسلام آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جب کہ آپ تو مٹی میں گھل مل جائیں گے؟ آپ نے جواب دیا کہ بے شک الله تبارک وتعالیٰ نے زمین پر انبیاصلوٰت الله علیہم کے جسموں کو (کھانے سے) حرام کر دیا ہے۔“

مذکورہ حدیث میں جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جواب محض اس شبہے سے متعلق نہ تھا کہ آپ خاک ہو جائیں گے ، بلکہ یہ جواب اس پورے جملے کا تھا جس میں عرض کیا گیا تھا کہ ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا۔آپ کے جواب سے یہ ثابت ہوا کہ ” انبیا علیہم السلام کے اجسام مطہرہ قبور مبارکہ میں اس طرح سے محفوظ ہیں کہ وہ پیش کیے گئے درود وسلام کو خود سماعت فرماتے ہیں، پس آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی قبر میں اس طرح فائزالحیات ہیں کہ صلوٰة وسلام کو سماعت فرماتے ہیں۔“

شیخ سندھی رحمہ الله حاشیہ نسائی میں لکھتے ہیں:
” والجواب بقولہ صلى الله عليه وسلم ان الله حرم علی الارض اجساد الانبیاء کنایة عن کون الانبیاء احیاء فی قبورہم“․ ( حاشیہ السندی علی النساء،3/91،کتاب الجمعة، مکتب المطبوعات الاسلامیہ) یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ جواب انبیا کے اپنی قبور میں زندہ ہونے سے کنایہ ہے۔

حیات انبیاء علیہم السلام پر اجماع
شیخ نور الحق بن عبدالحق محدث دہلوی رحمہ الله لکھتے ہیں:
”قول مختار ومقرر جمہور ایں است کہ انبیا بعد ازوقت موت زندہ اند بحیات دنیوی“ ۔ ( تیسیر القاری، ج:3، ص:262)

یعنی قول مختار اور جمہور کا مذہب یہی ہے کہ انبیا علیہم السلام موت کا ذائقہ چکھنے کے بعد حیات دنیوی کے ساتھ زندہ ہیں۔

علامہ سخاوی رحمہ الله، جو بہت بڑے محدث، اصولی اور مؤرخ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی کتب کے مصنف بھی ہیں، لکھتے ہیں:
” ونحن نؤمن ونصدق بانہ صلی الله علیہ وسلم حی یرزق فی قبرہ، وان جسدہ الشریف لا تاکلہ الأرض اجماعاً․“ (القول البدیع فی الصلوٰة علی الحبیب الشفیع، ص:172)

ہم ایمان رکھتے ہیں او رتصدیق کرتے ہیں کہ نبی اقدس صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں، ان کو اپنی قبر میں رزق دیا جاتا ہے، اوران کے اجسام مبارکہ کو زمین نہیں کھاتی، اس پر اجماع ہے۔

حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ الله لکھتے ہیں:” تمام اہلسنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام وفات کے بعد اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز اور عبادت میں مشغول ہیں۔“ ( سیرت المصطفیٰ، ج:3، ص:249)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ الله لکھتے ہیں” بیاید حیات انبیا متفق علیہ است ،وہیچ کس را دروے خلاف نیست“۔ ( اشعة اللمعات، 1/613) ترجمہ: جاننا چاہیے کہ انبیا علیہم السلام کی حیات متفق علیہ ہے ،کسی کو اس میں اختلاف نہیں۔

مولانا خلیل احمد سہارن پوری رحمہ الله لکھتے ہیں:
” اس بات کو خوب یاد کر لینا ضروری ہے کہ عقیدہ سب کا ہے کہ انبیا علیہم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں۔“ (براہین قاطعہ، 199)

قطب الارشاد حضرت گنگوہی رحمہ الله لکھتے ہیں:” مگر انبیا علیہم السلام کے سماع میں کسی کو اختلاف نہیں“۔ ( فتاوی رشیدیہ، 1/100)اور چوں کہ سماع بغیر حیات کے نہیں ہوتا، لہٰذا ان کی حیات میں بھی کسی کو اختلاف نہیں۔

علماء احناف کی تصریحات
1..ملاعلی القاری فرماتے ہیں:
”المعتقد المُعْتَمَدُانہ صلی الله علیہ وسلم حی فی قبرہ، کسائر الانبیاء فی قبورہم، وھم احیاء عندربہم، وان لأرواحہم تعلقا بالعالم العلوی والسفلی، کما کانوا فی الحال الدنیوی․ (شرح الشفاء لملاعلی القاری،2/142)
ترجمہ:” ہمارا یہ عقیدہ اور اس پر اعتماد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی قبر میں تمام انبیا کی طرح زندہ ہیں اور وہ سب انبیا اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں او ران کی ارواح کو عالم علوی اور سفلی سے ایک تعلق ہے، جیسا کہ دنیا میں ان کی حالت ہوتی تھی۔“

2..شامی میں ہے:” لأن الانبیاء علیہم الصلاة والسلام احیاء فی قبورہم“․یعنی بے شک انبیاء اپنی قبور میں زندہ ہیں۔

3..عمدہ القاری میں ہے:” انہم لایموتون فی قبورہم، بل ہم احیاءٌ الی آخرہ“․ ( عمدة القاری شرح صحیح البخاری:7/600)یعنی بے شک انبیا اپنی قبروں میں نہیں مرتے بلکہ وہ زندہ ہیں۔

علمائے شافعیہ، حنابلہ اور مالکیہ کی عقیدہ حیات النبی صلى الله عليه وسلم کے بارے میں تصریحات
1..طبقات شافعیہ میں مذکور ہے:
”عندنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم حیّ یحس ویعلم وتعرض علیہ اعمال الأمة یبلغ الصلاة والسلام علیٰ ما بینا“․ (طبقات الشافعیہ الکبرٰی، الطبقة الثالثة، 3/412، دارالجھر للطباعة) ہمارے (یعنی شافعیہ کے) نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم زندہ ہیں ،حس اور علم رکھتے ہیں اور آپ کے پاس امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور صلاة وسلام پہنچایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ ہم بیان کرچکے۔

2..علامہ ابن حجر شافعی فرماتے ہیں:
” ان حیاتہ صلی الله علیہ وسلم فی القبر لا یعقبھا موت بل یستمر حیّاً، والانبیاء احیاء فی قبورہم․“(فتح الباری، 297، دار المعرفة بیروت، رقم 3467)

یعنی قبر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی ایسی ہے جس پر موت نہیں آئے گی بلکہ آپ زندہ رہیں گے اور انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔

3..شیخ الاسلام ابن تیمیہ حنبلی رحمہ الله لکھتے ہیں:
قال ان الله حرم علی الارض أن تأکل اجساد الانبیاء، فأخبر انہ یسمع الصلاة من القریب، ویبلغ ذالک من البعید“․ (رسائل ابن تیمیہ، الکلام فی مناسک الحج، ص:391)

” الله تعالیٰ نے زمین پر انبیا علیہم السلام کے اجساد مبارک کھانا حرام کر دیا ہے، آپ عليه السلام قریب میں صلوہ وسلام خود سنتے ہیں اور دور سے ان کو پہنچایا جاتا ہے۔“

4..ابن عقیل حنبلی فرماتے ہیں:
”قال ابن عقیل من الحنابلة: ھو صلی الله علیہ وسلم حی فی قبرہ یصلی․“ (الروضة البہیة، ص14 بحوالہ حیات انبیاء از عبدالشکور ترمذی، ص37)

” حنابلہ میں سے ابن عقیل نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں ، نماز پڑھتے ہیں۔“

5..شیخ محمد علیش مالکی رحمہ الله اپنے ایک فتویٰ میں فرماتے ہیں:
”فکأنہ صلی الله علیہ وسلم لَمْ یَمُتْ، وقد وَرَدَ: الانبیاء احیاء فی قبورھم یصلون ویحجون“․ (منح الجلیل شرح مختصر خلیل6/195)
ترجمہ:” گویا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے وفات نہیں پائی اور (احادیث میں) وارد ہوا ہے کہ انبیا اپنی قبور میں زندہ ہیں ، نماز پڑھتے ہیں اور حج کرتے ہیں۔

عقیدہٴ حیات کے بارے میں دیگر علماء کی تصریحات
1..علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
” وقد ذھب جماعة من المحققین الی انّ رسول الله صلی الله علیہ وسلم حی بعد وفاتہ وأنہ یسر بطاعات امتہ“․ (نیل الاوطار، باب فضل یوم الجمعة،3/304، ادارة الطباعة المنیرة)
ترجمہ:” اور محققین کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد زندہ ہیں اور آپ اپنی امت کی عبادات پر خوش ہوتے ہیں۔“

2..شیخ محمد بن عبدالوھاب نجدی فرماتے ہیں:” والذی نعتقدہ، أن رتبة نبینا محمد صلى الله عليه وسلم أعلی مراتب المخلوقین علی الإطلاق، وأنہ حی فی قبرہ حیاة برزخیة، أبلغ من حیاة الشہداء المنصوص علیہا فی التنزیل، اذ ھو افضل منھم بلاریب، وانہ یسمع سلام المسلم علیہ الخ“․ (الدرر السنیة فی الکتب النجدیة، ص:230)

ترجمہ: او رہمارا یہ اعتقاد ہے کہ ہمارے نبی محمد صلی الله علیہ وسلم کا رتبہ علی الاطلا ق تمام مخلوقوں کے رتبہ سے بڑھ کر ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں برزخی زندگی کے ساتھ فائز الحیات ہیں، وہ زندگی شہداء کی منصوص علیہ فی القرآن زندگی سے زیادہ قوی ہے ،کیوں کہ بے شک آپ ان سے افضل ہیں اور آپ مسلمان کے سلام کو سماعت فرماتے ہیں۔“

3..مولانا نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں کہ:
”حضرات انبیائے کرام علیہم السلام اپنی اپنی قبر میں زندہ ہیں ، خصوصاً آں حضرت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کوئی عند القبر درود بھیجتا ہے وہ سنتا ہوں اور دور سے پہنچایا جاتا ہوں۔“ ( فتاوی نذیریہ،2/55، ضمیمہ)

علمائے دیوبند کا متفقہ عقیدہ
اب ” المہند“ کا تاریخی فیصلہ نقل کیا جاتا ہے، جس میں اکابر علمائے دیوبند ،شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن سے لے کر مولانا مفتی کفایت الله صاحب تک کے اکابر علمائے کرام کے دستخط موجود ہیں:

” عندنا وعند مشائخنا حضرة الرسالة صلی الله علیہ وسلم حی فی قبرہ الشریف، وحیاتہ صلی الله علیہ وسلم دنیویة من غیر تکلیف، وھی مختصة بہ صلی الله علیہ وسلم وبحمیع الانبیاء، فثبت بھذا أن حیاتہ دنیویة برزخیة لکونھا فی عالم البرزخ“․ ( اَلْمھنّد علی المفند، ص:35)

ترجمہ: ہمارے اور ہمارے مشائخ کے نزدیک رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیات دنیوی بغیر تکلیف کے ہے ( یعنی آپ عبادات وغیرہ کے مکلف نہیں ہیں)اور یہ حیات آپ صلی الله علیہ وسلم او رتمام انبیاء کے ساتھ خاص ہے … پس اس سے ثابت ہوا کہ آپ کی حیات دنیوی برزخی ہے۔ کیوں کہ عالم برزخ میں ہے۔

منکرین حیاتِ انبیا علیہم السلام
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ قبور مبارکہ میں انبیا علیہم السلام کے اجسام مبارکہ صحیح وسالم او رمحفوظ تو ہیں ، مگر ان کی ارواح طیبات کا ان اجسام مبارکہ سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ اور وہ قبر مبارک کے پاس عرض کیے گئے صلوة وسلام کا سماع بھی نہیں فرماتے۔

ان لوگوں کا یہ خیال دراصل اس غلط نظریے کا نتیجہ ہے کہ موت کے بعد ثواب وعقاب کا سارا معاملہ صرف روح سے ہوتا ہے ۔ ( یہ مذہب بعض معتزلہ اور روافض کا ہے۔ شرح عقائد نسفی میں ہے کہ بعض معتزلہ اور روافض نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے ۔ ص:72)

اور اگر بدن یا اجزائے بدن سے ان کا تعلق ہوتا بھی ہے تو پھر بھی روح کا تعلق ان ابدان عنصریہ مدفونہ سے نہیں ہوتا ، بغیر تعلق روح کے ہی یہ بدن یا اجزائے بدن مُثاب یا مُعَذّب ہوتے ہیں۔ ( یہ مذہب معتزلہ میں سے فرقہ کرامیہ اور صالحیہ کا ہے، علامہ خیالی فرماتے ہیں اور ان میں سے بعض نے مردے کی تعذیب کو روا رکھا ہے اور کوئی شک نہیں کہ یہ حماقت ہے۔ خیالی، ص:118)

پس آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے جسد اطہر کو روضہٴ مبارکہ میں ان بعض جہلا کے کہنے کے مطابق محض بے حس وبے شعور اور جماد مطلق تسلیم کر لیا جائے تو معتزلہ اور روافض کے اس اصول کو صحیح تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وفات کے بعد روح وبدن میں کوئی تعلق نہیں ہوتا، ان میں کلی مفارقت رہتی ہے ، ظاہر ہے کہ قرآن وسنت کی تصریحات کے مطابق یہ نظریہ اہل سنت والجماعت کا نہیں ہو سکتا۔ (جاری)

Flag Counter