Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1436ھ

ہ رسالہ

5 - 20
حفاظت قرآن مجید، اسباب وذرائع

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
	
ایک حدیث نبوی کے مطابق اس دنیا میں الله تعالیٰ نے کم وبیش تین سو تیرہ آسمانی کتب نازل کی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے گزشتہ آسمانی کتب وقت کے ساتھ ساتھ اپنی اصلیت کھو بیٹھیں اور ناقابل اعتبار ہو گئیں۔ کچھ کتب ویسے ہی زمانے کی دست برد کا شکار ہو کر قصہٴ پارینہ بن گئیں، آج گزشتہ کتب میں کہیں کہیں ان کے صرف نام ہی ملتے ہیں ، عملاً ان کا وجود اس دنیا سے عنقا ہو چکا ہے، جیسے حضرت نوح عليه السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان پر کوئی کتاب نازل ہوئی تھی یا صحف ابراہیم عليه السلام وغیرہ، کچھ کتب کی زبان اس دنیا سے نابود ہو گئی، آج کوئی اس زبان کا بولنے والا اور سمجھنے والا نہیں ہے ۔ وہ کتب یا ان کے متون کہیں کہیں ملتے تو ضرور ہیں، لیکن بہت تحقیق اور جستجو کے بعد بھی سمجھ میں آنے والی بات کی حیثیت ظن وتحقیق اور قیاس وگمان اور اندازوں کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ ان کی مثال ہندوؤں ، بدھوں اور چین وجاپان کے قدیم مذاہب کی کتب ہیں، جو آسمانی کتب آج کچھ اہل مذاہب کے ہاں موجود بھی ہیں تو وہ اپنے آغاز سے آج تک تاریخی تواتر سے محروم ہیں۔

کچھ آسمانی کتب کو ان کے ماننے والوں نے اگرچہ سنبھال کر احتیاط سے رکھا، لیکن ان کی اصلیت بھی اس لیے مشکوک ہے کہ آج سینکڑوں سال گزرنے کے بعد وہ ترجمہ در ترجمہ ہو کر اگلی سے اگلی نسلوں کو منتقل ہوتی رہیں اور آج ان کا ماسٹر ٹیکسٹ جس زبان میں موجود ہے، یہ قطعاً بھی وہ زبان نہیں، جس میں مذکورہ کتب کا نزول ہوا تھا، ترجمہ کتنی ہی احتیاط سے کیا جائے او رکتنے ہی ماہر مترجم اس کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کریں، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اصلیت بہرحال باقی نہیں رہتی او رمتن کامافی الضمیر شاید منتقل ہو جائے لیکن اس کی روح بالکل ہی ماری جاتی ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ گزشتہ آسمانی کتب سچی تھیں اور سچے نبیوں پر نازل ہوئی تھیں۔ الله تعالیٰ نے ہمیں پابند کیا ہے کہ ہم ان کی حقانیت کواپنے ایمان کا حصہ بنائیں کہ اس کے بغیر دائرہ اسلام میں داخلہ ممکن نہیں، لیکن ان کتب کی موجودہ اصلیت کے پیش نظر ان پر عمل کرنا منسوخ کر دیا گیا ہے او رماضی میں بھی یہ الله تعالیٰ کی سنت رہی ہے کہ نئی کتاب اور نئی شریعت نازل ہونے کے بعد گزشتہ شرائع اورگزشتہ کتب منسوخ کر دی جاتی تھیں۔ تاہم یہ مثالیں ضرور میسر ہیں کہ گزشتہ تعلیمات واحکامات کا جو حصہ بارالہٰ نے چاہا اگلی شریعت میں باقی رکھا اور اس کے کئی شواہد ونظائر آخری شریعت میں بھی موجود ہیں، جس کی واضح مثال قانون رجم ہے ،جو دراصل توریت میں نازل ہوا تھا اور آخری نبی علیہ السلام نے اسے باقی رکھا۔ دنیا سے جب آسمانی کتب کی اصلیت جاتی رہی اور صدیاں بیت چکنے کے بعد روشنی وراہ نمائی اورر شدوہدایت کا کوئی نسخہ قابل اعتماد نہ رہا تو آخر میں الله تعالیٰ نے اپنے آخری نبی صلی الله علیہ وسلم پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید فرقان حمید نازل فرمائی اور انسانوں کے گزشتہ روئیے کے پیش نظر اس بار اپنی کتاب کی حفاظت کا ذمہ خو دلیا اور وقت نزول قرآن سے آج اس دن تک حفاظت کتاب الله کے جو انتظامات نظر آتے ہیں، انہیں دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ یہ خدائی انتظامات ہی ہیں،کوئی انسان ، ادارہ، گروہ یا بہت بڑی حکومت بھی صدیوں کے تسلسل او رتواتر کے ساتھ کیے گئے ان انتظامات سے مکمل طور پر عاری اور بے بس ہے۔

نزول قرآن مجید کے وقت لکھنے پڑھنے کا رواج ہی نہیں تھا، مکہ جیسے قلب عرب میں کل سترہ افراد پڑھے لکھے تھے، تحریر کا فن اتنا ناقص تھا کہ غیر عرب کے لیے عربی تحریر کا پڑھنا تقریباً ناممکن تھا۔ اعراب، ڈانڈے حروف کی گولائیاں اور نقطے بہت بعد کی اختراع ہیں۔ جہاں فن تحریر کی یہ صورت حال ہو وہاں تحریر کے سامان کی فراہمی کتنی مشکل ہو گی؟ اس کا انداز آسانی سے کیا جاسکتا ہے، اس سے بڑی او رکیا بات ہو گی کہ خود صاحب قرآن صلی الله علیہ وسلم امی تھے لیکن اس سب کے باوجود قرآن کی ایک ایک آیت کی املا دینا، اسے ضبط تحریر میں لانا، پرانے کپڑوں، کھجور کی چھال، جانور کا چمڑا، لکڑی، پتھر اور اونٹ کی شانے کی ہڈی جیسی بکھری ہوئی چیزوں پر قرآن مجید کو پوری آفاقی ترتیب کے ساتھ ایک ایک سورت اور ایک ایک آیت کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک نظم کے ساتھ پرودینا ایسا خدائی انتظام ہے کہ جس کی مثال اس زمین کے سینے پر، اس نیلی چھت کے نیچے میسر ہی نہیں۔ حفظ قرآن مجید وہ اعزاز ہے جو صرف اسی کتاب کے ساتھ مخصوص ہے ۔ آٹھ نو یا دس سال کا بچہ یا بچی مدرسے میں جاتے ہیں اور دو تین سال میں من وعن ساری کتاب سینے میں اتار آتے ہیں ۔ یہ حفظ اس شان کے ساتھ کرایا جاتا ہے کہ ایک ایک حرف، ایک ایک اعراب او رتلفظ کی چھوٹی سے چھوٹی غلطی کا بھی امکان نہ رہے۔ نزول قرآن سے آج تک امت پر دور زوال ہو یا دور عروج، شاہی ہو یا جمہوریت، تاریخ کا کوئی دور ہو یا جغرافیہ کاکوئی خطہ ہو او رکوئی مسلک ومکتب فکر ہو ، حفظ قرآن کو کبھی زوال نہیں آیا۔

الله تعالیٰ نے اس کتاب کی حفاظت کے لیے اسے ایسی زبان میں نازل کیا ہے جو قیامت تک زندہ رہے گی ۔ اس دنیا میں کسی زبان کی عمر ساٹھ سال سے زائد نہیں ہوتی، پھر اس کے قواعد، اس کا تلفظ اور اس کے شعائر بدل جاتے ہیں۔ بعض واقات ایک ہی وقت میں شہر میں بولی جانے والی زبان اور دیہات میں بولی جانے والی زبان میں بہت تفاوت ہوتا ہے ۔ یہ معاملہ دنیا کی سب سو فی صد زبانوں کے ساتھ ہے ۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ اس کتاب کی زبان ڈیڑھ ہزار سال گزر جانے کے باوجود آج بھی عرب کے صحراؤں، گاؤں، گلی، محلوں، بازاروں اور بدوی قبائل میں اسی طرح بولی، سمجھی اور سکھلائی جاتی ہے۔ اس کتاب کے محاورے، تراکیب اور اس کا اسلوب بیان آج بھی زندہ وتابندہ ہے اور تاقیامت اسی طرح رہے گا۔ قرآن مجید کی حفاظت کا ایک انتظام یہ بھی ہے کہ یہ صدیوں سے پوری دنیا کے اندر سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے ۔ اس کو محمد مار ماڈوک پکتھال جیسے لوگ بھی پڑھتے ہیں، جنہوں نے صرف قرآن کی زبان سمجھنے کے لیے جرمنی جیسے ٹھنڈے ملک سے آکر عرب کے تپتے ہوئے صحراؤں اور ریگستانوں میں اپنی عمر عزیز کے بیس سال گزارے او رپھر انگریزی میں ترجمہ کیا۔ صدیوں سے بہترین انسانی دماغ اس کتاب پر قلم اٹھاتے ہیں اور حیرت ہے کہ یہ کتاب اپنے راز اگلتی جارہی ہے۔

ہمارے جیسے طالب علم بھی اس کتاب سے فیض یاب ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی اس کتاب کو پڑھتے ہیں جن کی کل تعلیم ہی یہی کتاب ہوتی ہے ۔ آج بھی دور دراز دیہات اور شہروں میں بھی بڑی بوڑھیاں صرف اس کتاب کی تلاوت جانتی ہیں، انہیں ایک لفظ کا مطلب نہیں آتا او رپھر بھی ساری عمر اپنے سامنے کئی بچیوں اور بچوں کو بٹھا کر قرآن پڑھاتی ہیں او راگرچہ وہ حافظ نہیں ہوتیں، لیکن دس دس بچے بھی پڑھ رہے ہوں اور وہ خود سبزی کاٹ رہی ہوں تو ان میں سے ایک بچہ بھی معمولی غلطی کرے گا تو فوراً اس کی اصلاح کرتی ہیں او رکتنی حیرانی کی بات ہے کہ وہ لوگ بھی اس قرآن کو پڑھتے ہیں جو پڑھنا ہی نہیں جانتے؟! جاہل اور اَن پڑھ لوگ بھی فجر کی نماز کے بعد قرآن کو چومتے ہوئے کھولتے ہیں، اس کے اوراق پر لکھی تحریر کو نہایت ادب اور احترام سے چھوتے ہیں، اس کی ایک ایک سطر پر اس یقین اور ایمان کے ساتھ انگلی رکھتے ہیں کہ یہ سچ اور حق ہے اور بوسہ دیتے ہوئے قرآن مجید کو غلاف میں لپیٹ دیتے ہیں اور جہاں رکھتے ہیں پھر اس طرف پشت نہیں کرتے۔

اس کتاب کی حفاظت کا ایک اور خداوندی اہتمام یہ ہے کہ یہ صدیوں سے پوری دنیا میں سب سے زیادہ سنی جانے والی کتاب ہے، کتنے ہی لوگ لاکھوں روپے خرچ کرکے ہزاروں میل کی مسافت طے کرتے ہیں کہ عمرہ میں حرمین شریفین جاکر تراویح میں قرآن سنیں۔ کسی کو کوئی گانا بہت پسند ہو، کسی کو غزل بہت اچھی لگتی ہو یا کوئی اور ڈراما فلم دل کو بہت بھائے وہ کتنی دفعہ سنتا یا دیکھتا ہے؟ دو چار دفعہ بس، پھر اکتا کر بٹن بندکر دیتا ہے، لیکن یہ قرآن آخر چند صفحوں کی ایک کتاب ہی ہے، جسے صدیوں سے اور نسلوں سے انسانیت سنتی ہی چلی آرہی ہے، پڑھتی ہی چلی آرہی ہے اورکبھی کسی نے نہیں کہا کہ بس کرو، اب مجھے اکتاہٹ ہوتی ہے۔ الله تعالیٰ نے اس کتاب کو صرف امت مسلمہ کے لیے ہی نہیں، بلکہ کل انسانیت کے لیے اتارا ہے۔

یہ کتاب قیامت تک زندہ وتابندہ رہے گی، اس میں موجود خدائی رازوں کے مطابق آسمانی فیصلے نافذ ہوں گے، اسی میں بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس کرہٴ ارض پر قوموں کے مستقبل کا تعین ہو گا، یہ کتاب عزیز، افراد سے اقوام تک اور دنیاسے آخرت تک کام یابیوں اور ناکامیوں کے جو معیار مقرر کرے گی وہ حتمی ہوں گے اور یہ کتاب شروع میں شریعت تھی ،جب کہ آخر میں حقیقت بن جائے گی۔ قیامت تک اس میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے، کسی تغیر کا امکان نہیں او رتحریف کا تو سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ منصب نبوت اگرچہ ختم ہو گیا، لیکن کارنبوت جو اس کتاب کا مرہون منت ہے، اسے حاملین قرآن تاقیامت جاری رکھیں گے او رالله تعالیٰ کے ہاں اپنا صلہ خوب خوب پائیں گے۔

Flag Counter