جوراتوں کو روتا تھا
محترم عثمان غنی
استاد جامعہ فاروقیہ کراچی، مقر ثانی
قلم لرز رہا ہے، ہاتھ بے قابو، آنکھ نمدیدہ، تخیل سنجیدہ، سوچ کی نیّا ڈول رہی ہے، دل ہے کہ دشت تحیّر کی ویرانی میں گم صُم ٹھہرا ہے اور تصور انگشت بدندان ہے اور یہ حالت کیوں نہ ہو کہ سیرت کا بیکراں سمندر تخیل کے کرہٴ ارض میں موج زن ہے، میں سیرت پر لکھوں توکیا لکھوں؟ کہاں سے ابتدا ہو؟ کہاں انتہا ہو؟ سورج کو چراغ کیسے دکھایا جائے؟ سمندر کو کوزے میں کیسے بند کیا جائے ؟ ازل سے ابد تک جاری اس فیض کو چند ساعتوں کے تابع کیسے کیا جائے ؟ یہ ذرہٴ ناچیز خورشید بداماں کیسے ہو ؟ یہ ذرہٴ بے نشان، تاج دار کائنات کی ثنا خوانی کرے تو الفاظ کہاں سے لائے؟ یہ ہیچ محض ذرہٴ ناچیز ان کے گن گائے تو کیسے؟ یہ تو وہ موضوع ہے جس پر لکھنے سے پہلے دل کو آنسوؤں کے سمندر میں نہلایا جائے، حروف کو آب کوثر سے وضو کرایا جاتے، قلم کو عنبر میں بسایا جائے اور آنکھوں کو اثمد سے منور کرایا جائے، پھر رضوان سے جنت کے صفحات لے کر ان کے پاکیزہ نام کو لکھا جائے، آپ کی مدحت میں میری یہ ادنیٰ سی تحریر کسی صف میں کیسے کھڑی ہو سکتی ہے کہ نباتات وجمادات، شجروحجر بھی اس دوڑ میں مجھ سے آگے ہیں۔ پر نور، دمکتے ملائک کا تو تذکرہ ہی کیا کہ دن رات لگاتا ر ان کا یہی مشغلہ ہے، صحابہ کے مقام بلند پر نظر پڑتی ہے تو یہ بلندی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ حیرت کا وجود غشی کھا کر گر پڑتا ہے۔ کاش اے صدیق (رضی الله عنہ)! میں تیرے پاؤں کا وہ ٹکڑا ہوتا، جو حب نبی ( صلی الله علیہ وسلم) میں ڈس لیا گیا یا اس سامان کا کوئی ذرہ ہوتا جو جنگ تبوک کے موقعے پر خدمت نبوی میں حاضر کیا گیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کی مدحت تو وہ واحد ترانہ ہے جس کو خود خالق کائنات بھی پڑھتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم تو وہ ہستی ہیں کہ جس کے لہو کے پاکیزہ قطرے طائف کے ذروں کو سینچتے ہیں، آپ کے جوتوں میں بھرے خون کی چپ چپ فرشتے سنتے ہیں تو بے قرار ہو کر خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، ادھر فرش پر یہ دن گزرا تو عرش نے وہ دن بھی دیکھا کہ سدرہ کی سرحدوں کے اس پارا پنے محبوب سے دُوبدو گفت گو کا شرف ملا، باغ عدن کا سردار جب تبوک کی دھول پر قدم جماتا ہے تو چاند انگلی کے اشارے پر دونیم ہونے کے لیے تیار ہوتا ہے ۔ وہ انسانیت کا محسن جب انسان کے ہاتھوں دندان شکستہ ہوتا ہے تو انسانیت کی خیر خواہی میں اور شدت اختیار کر لیتا۔
آئیے! حجرہ مبارکہ میں شب کے سکوت میں، محو عبادت، اس پُرنور بشر کو چشم تصور سے دیکھتے ہیں ، وہ دیکھیے ! وہ معصوم فرشتہ نما انسان رات کی تنہائی میں اپنے محبوب حقیقی سے محوکلام ہے، اسی حالت میں رات کا ایک پہر گزر گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم روتے جارہے ہیں ، آنسو بہتے چلے جارہے ہیں ۔ تصور جاری … ارے یہ کیا؟ تصور کو تو نیند آگئی، خیال کھو گیا، تصور سو گیا، کافی دیر بعد ہچکیوں کی مسلسل آوازوں اور آہ وفغاں کی شدت سے تصور پھر بیدار ہو گیا۔ نماز اسی طرح جاری، اشکوں کا ریلا اسی طرح بہتا چلا جارہا ہے۔ اب رات کا آخری پہر شروع ہوا چاہتا ہے۔ ذرا غور تو کیجیے! یہ آہ وفغاں کیا ہے؟ اس نالہ وفریاد کے الفاظ تو سنیے! یہ ہچکیوں بھری پُردرد صدائیں کیا ہیں؟ ﴿ان تُعذ بھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیر الحکیم﴾․ اے الله! اگر آپ ان کو سزا دیں جب بھی آپ مختار ہیں کہ یہ آپ کے بندے ہیں اور آپ ان کے مالک اور مالک کو حق ہے کہ بندوں کو جرائم پر سزا دے او راگر آپ ان کو معاف فرما دیں تو بھی آپ مختار ہیں کہ آپ زبردست قدرت والے ہیں اور حکمت والے ہیں۔
تصور انگشت بدنداں دیکھتا چلا جارہا ہے، ارے یہ ابتدائے شب سے اب تک اپنے لیے نہیں رو رہے۔ یہ آنسو اپنی ذات کے لیے نہیں چھلک رہے ہیں ،بلکہ یہ تو امت کے غم میں بے اختیار ڈھلک رہے ہیں #
سلام اس پر جو امت کے لیے راتوں کو روتا تھا
سلام اس پر جو فرشِ خاک پر جاڑے میں سوتا تھا
حقیقت تو یہی ہے ” مجھ میں ان کی ثناء کا سلیقہ کہاں ؟ “ ان کی مدحت کا حق ادا کرنے کے لیے محبت سے لبریز دل ہونا چاہیے، اس دربار میں تاب سخن کس کو ہے؟ یہ ذرہٴ بے نشاں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی شان میں اتنا ہی لکھ سکتا ہے ، باقی دل کوہمت نہیں، قلم کو یارا نہیں ، اللھم صل علی محمد کما تحب وترضیٰ لہ