Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1436ھ

ہ رسالہ

7 - 20
حیاتِ ملّی اور علما ومشائخ

مولانا ابو الحسن علی ندوی
	
یہ تقریر میر واعظ منزل مقبوضہ کشمیر میں علماء ومشائخ کے مجمع میں کی گئی

حضرات! میں اس تھوڑے سے وقت میں ایسے معزز حضرات کی خدمت میں کیا عرض کروں ؟!

میں ایک حدیث سے مدد لیتا ہوں، صحیحین کی حدیث ہے:”ألا ان فی الجسد مُضغة إذا صلحت صلح الجسدُ کلہ، واذا فسدت فسد الجسدُ کلہ، ألا وھی القلب“ کلام نبّوت کا نور اس میں صاف چمک رہا ہے،( غور سے سن لو، جسم انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ۔مضغہ۔ ایسا ہے کہ اگر وہ درست ہو جائے تو جسم کا پورا نظام درست رہتا ہے،”واذا فسدت فسد الجسدُ کلہ․“او راگر اس میں بگاڑ آجائے تو پھرپورا جسم بگڑنے لگتا ہے، اس میں فساد پھیل جاتا ہے )۔ معلوم ہے مضغہٴ گوشت کیا ہے؟ کون سا ہے؟ آپ نے خود ہی اس کی تشریح فرمائی” الاوھی القلب“ یاد رکھو! وہ دل ہے۔ تو میں سمجھ رہا ہوں کہ جس طریقہ سے جسم انسانی کا ایک قلب ہوتا ہے ، امت کا بھی ایک قلب ہوتا ہے ، انسانیت کا بھی ایک قلب ہوتا ہے، یہ قلب جسم انسانی کے اندر اپنے فرائض انجام دیتا ہے اور اس انسانی جسم کا پورا نظام اس پر موقوف ہوتا ہے ، یہ قلب اگر خراب ہو جائے ( اور اس کی شکلیں بہت سی ہیں) اس بگاڑ کی اور اس بیماری کی نوعیت کچھ ہو ، لیکن جب قلب اس سے متاثر ہو جاتا ہے تو پورا جسم اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا اور پورا جسم اپنے اس نقطہ اعتدال او راپنے اس مقام سے ہٹ جاتا ہے، جس مقام پر وہ تھا، اس وقت میں سمجھ رہا ہوں کہ میں کشمیر کے قلب، شاید قلب ودماغ دونوں سے خطاب کر رہاہوں، ہم آپ سب خدا کے فضل سے صاحبِ قلب ہیں، اہل دل تو نہیں کہتا، اہل دل تو بہت بامعنی اور بہت بلند مفہوم رکھنے والا لقب ہے۔ شیخ سعدی جہاں ذکر کرتے ہیں،” صاحبِ دلے گفتہ“ ، ”صاحب دل فرمود“ کہتے ہیں۔ اہلِ دل کا تو بڑا مقام ہے، لیکن ہم سب اصحاب قلوب ضرور ہیں، آپ غور فرمائیے، دل کے لیے جادہٴ اعتدال پر رہنے کے لیے اور اپنا فطری وظیفہ بحیثیت ایک مضغہٴ گوشت، بحیثیت ایک جز کے (لیکن کل کی تنظیم کرنے والے اور حفاظت کرنے والے عضو کے) بڑے نازک اور عظیم فرائض ہیں۔

اب میں عرض کروں گا کہ دل کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں: تاکہ وہ اپنا فطری وظیفہ ادا کر سکے او رجسم کا نظام درست رہے، پہلی چیز یہ کہ وہ زندہ ہو، سارا انحصار اس کی زندگی پر ہے، اگر دل مر گیا تو پھر کسی چیز کا سوال نہیں، کسی شاعر نے کہا ہے #
        مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے
        کہ زندگی ہی عبارت ہے تیرے جینے سے

پہلی شرط ہے کہ دل زندہ ہو ، اس کا زندگی سے رشتہ جُڑا ہوا ہو، دوسری بات یہ کہ دل میں حرکت ہو، دل متحرک ہو اور آپ جانتے ہیں کہ دل کی حرکت بند ہوئی تو دل بھی ختم او رجسم بھی ختم، پھر زندگی کا کوئی سوال نہیں ، دل کو حرکت میں رکھنے کے لیے کیا کیا تدبیریں کی جاتی ہیں ، طبی ، جسمانی، عضوی اور اب میکانکی بھی، آپ سب جانتے ہیں کہ دل کو حرکت میں لانے کے لیے جس طریقہ سے ایک انسان اپنی زندگی کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے، اسی طرح معالجین، اطباء اور ہارٹ اسپیشلسٹ ہیں، اس کو حرکت میں لانے کے لیے کیا کیا تدبیریں کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حرکت میں آجائے، پھر آگے اس کو باقی رکھنے کی کوشش کی جائے گی ، تیسری شرط یہ ہے کہ دل میں حرارت ہو، دل سرد اور افسردہ نہ ہو جائے، یہ تین شرطیں ہوئیں: حیات، حرکت ، حرارت۔

اب میں عرض کروں گا کہ جس خِطہ، جس ملت وامّت اور جس خاندان کے خواص ہوں، ان کے لیے بھی یہ تین شرطیں ہیں، پہلے یہ کہ وہ زندہ ہوں، دوسرے یہ کہ وہ متحرک ہوں، تیسرے یہ کہ ان کے اندر حرارت ہو،  اگر ان میں سے کوئی چیز چلی جائے اور خواص کا رشتہ زندگی سے منقطع ہو جائے، تو پھر عوام کا کیا حال ہو گا؟ آپ سمجھ سکتے ہیں ، یوں سمجھیے کہ خواص پاورہاؤس (Power House) ہیں ، ملت اسلامیہ اور ملت جو آج تک قائم ہے ، اپنے اس پاور ہاؤسسے کے تعلق کی وجہ سے اس کا پاور ہاؤس کبھی بند نہیں ہوا، معطل نہیں ہوا، آپ دیکھتے ہیں ، تھوڑی دیر کے لیے پاور ہاؤس آپ کے شہر کا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے او راس کا ربط ٹوٹ جاتا ہے ، تو بجلی کے تاروں میں کرنٹ بند ہو جاتا ہے اور ہر جگہ اندھیر اور سردی پھیل جاتی ہے تو ملت کا پاور ہاؤس اس کے خواص ہیں، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی دور میں اس ملت کا پاور ہاؤس بند نہیں ہوا، یہ امّت کے تسلسل کی تاریخ درحقیقت خواص کے اصلاحی کارناموں کے تسلسل کی تاریخ ہے ، اگر آپ اس کو ذرا گہرائی سے دیکھیں گے تو آپ جس کو ملت اسلامیہ کے بقا کی تاریخ کہتے ہیں ، یہ ملت اسلامیہ کے خواص کی بقا اور تسلسل کی تاریخ ہے ، ملت میں ہر دور میں ایسے لوگ موجود تھے، جو خودزندہ تھے، خود متحرک تھے، صاحب حرارت تھے، ان کی وجہ سے ملت کی رگوں میں خون کی تقسیم صحیح ہوتی تھی، آپ جانتے ہیں کہ دل خون تقسیم کرتا ہے ، اس کی وجہ سے یہ خون رگوں اور شرائین میں دوڑتا ہے، تو ملت کے قلب نے کبھی اپنا کام بندنہیں کیا، ملت پر جو زوال آیا، اور ملتیں مٹ گئیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کا پاور ہاؤس بند ہو گیا آپ عیسائیت کی تاریخ پڑھیں ، یہودیت کی تاریخ پڑھیں آپ کو معلوم ہو گا کہ انبیائے بنی اسرائیل کے تھوڑے عرصہ کے بعد اسرائیلی پاور ہاؤس نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا، وہ کام کیا تھا؟ احتساب کا کام، امر بالمعروف نہی عن المنکر کا کام ، حق وباطل میں تمیز کا کام اور بے خوفی، بے رعبی، خدا پر توکل، صحیح کلمہٴ حق کہنا ، ہرحال میں، کوئی ناراض ہو، کوئی راضی ہو، بنی اسرائیل کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس پاورہاؤس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا تھا، قرآن مجید میں اس کی شہادت ہے :﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِنَّ کَثِیْراً مِّنَ الأَحْبَارِ وَالرُّہْبَانِ لَیَأْکُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّہ﴾․(التوبہ:34)
ترجمہ:” اے ایمان والو( اہل کتاب کے) بہت سے عالم اور فقیر لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور الله کی راہ سے روکتے ہیں۔“

اس سے بڑھ کر شاید شہادت نہیں ہو سکتی کہ بنی اسرائیل کا پاور ہاؤس کیا تھا؟ یہ اس کے احبار اوررہبان تھے، ان کے علماء او رمشائخ تھے، احبار ورہبان اگر آپ اس وقت کی اصطلاحات میں اور اسلامی ٹرمس (Terms) میں ترجمہ کریں تو ”علماء ومشائخ“ ترجمہ ہو گا، ان کے اکثر علماء ومشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے تھے ﴿وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّہ﴾ یعنی جو کام تھا وہ نہیں کرتے تھے اور جو کام نہیں کرنا تھا، وہ کرتے تھے اور اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ پاورہاؤس نے اپنا اصلی کام چھوڑ دیا، دوسرا کام شروع کر دیا، یہ کانسٹبل جو ٹریفک کنٹرول کرتا ہے، یہ اگر اپنی جگہ چھوڑ اور پانی پلانے لگے، راستہ بتانے لگے تو گاڑیوں میں ٹکر ہو جائے، بیسیوں حوادث پیش آئیں، حالاں کہ وہ کار خیر کر رہا ہے، بہت ثواب کا کام کرتا ہے پیاسے کو پانی پلاتا ہے ، دور تک جاتا ہے ، راستہ بتانے کے لیے، لیکن وہ مستوجب تعزیر ہو گا کہ اس نے اپنا اصلی کام چھوڑ دیا، ڈیوٹی چھوڑ دی، علماء ومشائخ کا کام کیا تھا؟ الله پر بھروسہ کرنا، زہد وقناعت کی زندگی گزارنا، دوسروں کی جیبوں پر نظر نہ ڈالنا، دوسرں کے مال کو نہ دیکھنا اور جو ملے اس پر شکر کرنا لیکن کیا کرنے لگے؟﴿لَیَأْکُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ﴾ وہ لوگوں کا باطل طریقہ پر مال کھانے لگے ،خود محنت نہ کرتے، دوسروں کی محنت سے فائدہ اٹھاتے، دوسروں کی محنت کیا ہے؟ اپنے او راپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا، اس محنت سے تو یہ مفت میں فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن ان کی جو محنت تھی، انہوں نے جو پڑھنے میں محنت کی تھی، علم حاصل کرنے میں محنت کی تھی، اس کا نتیجہ لوگوں کو وہ دیتے نہیں، یہ اپنی محنت کے نتیجہ میں لوگوں کو شریک نہیں کرتے اور لوگوں کی محنت کے نتیجہ پر وہ حاوی اور مسلط ہو گئے ہیں کہ اس کا بڑا حصہ انہیں کی نذر ہو جاتا ہے،﴿وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللّہ﴾ ان کا کام تھا لوگوں کو راستہ بتانا، الٹا راستہ روکنے لگے، یعنی بجائے راہ بر کے راہ زن بن گئے، اگر آپ ملتّوں کی تاریخ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان کا پاورہاؤس پہلے بند ہوا اور ملت میں بعد میں فساد آیا، تحریف آئی ۔

یہ ہر ملت کی تاریخ ہے ، لیکن ہماری ملت کی تاریخ یہ ہے کہ مختصر سے مختصر دور میں بھی اس کے پاور ہاؤس نے کام کرنا نہیں چھوڑا اور یہ ایک ایسا تسلسل ہے کہ اگر کوئی شخص اس پر قسم کھائے تو وہ حانث نہیں ہو گا ( یعنی اس کو کفارہ دینانہیں ہو گا) اگر میں یہ کہوں کہ اس ملت کی تاریخ میں ایک مہینہ کی مدت بھی ایسی نہیں گزری کہ جس میں اس کا پاورس ہاؤس بالکل خاموش ہو گیا ہو اور کوئی خدا کا بندہ عالم اسلام کے کسی حصہ میں ، کسی ملک میں بھی نہیں رہا جو حق کو حق کہے، باطل کو باطل کہے ، تو یہ بات صحیح نہیں اور اس کی سب سے بڑی شہادت صحاح کی روایت ہے کہ ”لاتزال طائفة من أمتی قوامة علی امر الله، لا یضرھا من خالفھا“۔(میری امت کے ہر دو رمیں ، ہر زمانہ میں ایک جماعت ضرور رہے گی، جو حق پر قائم ہو گی اور کوئی ان کی کتنی ہی مخالفت کرے اور ان کی مدد نہ کرے، ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

اب کسی علاقہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ وہاں کے خواص جو وہاں کا قلب ہیں، وہ یا مردہ ہو جائیں، یا متحرک ہو جائیں یا ان کی حرارت ختم ہو جائے، بس اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ تینوں شرطیں ہم میں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ حیات، حرکت، حرارت، اگر حیات ہے، لیکن حرکت نہیں ہے، ہماری زندگی میں وقوف وتعطل پیدا ہو گیا ہے، تو جیسے بہتا ہوا پانی، رکنے کے بعد خراب ہونا شروع ہوجاتا ہے او راس میں تعفن پیدا ہو جاتا ہے ، اسی طرح ہمارے معاشرہ او رحیاتِ ملّی میں بھی فساد آجائے گا، تیسری بات یہ کہ آپ کے اندر حرارت بھی ہو، یعنی آپ کے اندر تعلق مع الله، عشق رسول، لقائے رب اورجنت کا شوق، ایمان کی قوت اور حق بات کہنے کی جرأت باقی ہو، تو پھر کوئی کتنی ہی سازش کرے، اس جسم کو خراب کرنے کی، جسم خراب نہیں ہو گا، لیکن اگر قلب اپنا کام کرنا چھوڑ دے تو دنیا کی ساری سلطنتیں اور طاقتیں جمع ہو جائیں تو اس جسم کو زندہ نہیں رکھ سکتیں، جس طریقہ سے کسی درخت کی اگر قوتِ نمو ختم ہو جائے تو آپ ہزار مرتبہ، ہزار طریقے سے اس پر پانی گرائیں تو وہ درخت سر سبز نہیں رہ سکتا، تھوڑے دن میں وہ گر جائے گا اور ایندھن بن جائے گا۔

حضرات! ہمیں تاریخ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں ہر دور میں ایسے لوگ رہے جو حق بات کہتے تھے اور ان کے اندر حرارت تھی، حرارت ایمان اورحرارت عشق ان کے اندر باقی تھی، جو شخص ان کے پاس بیٹھتا تھا، وہ متأثر ہوتا تھا، ان کے پاس سے گزر جانے والا بھی بعض اوقات محروم نہیں رہتا تھا، اس کو بھی آنچ پہنچتی تھی، اس میں بھی کرنٹ دوڑ جاتا تھا، یہ جو آپ تصوف کی تاریخ اور صوفیائے کرام کے ذکر میں سنتے ہیں، کہ ان کے اندر بھی توکل کے بجائے تواکل اور حرکت کے بجائے تعطل پیدا ہو گیاتھا اور رسمیت آگئی تھی، تو یہ بعد کی بات ہے او رکسی حلقہ او رجگہ کے ساتھ مخصوص ہے، ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں کہ لوگ جو صوفیا اور مشائخ کہلاتے تھے، ان کے ذریعہ سے عوام میں ایمان اور عمل کا ایک کرنٹ دوڑتا تھا اور اگر ایک شہر میں ایک بھی ایسا آدمی ہوتا تھا تو اس شہر پر غفلت، جاہلیت، خدا فراموشی، دولت پرستی اور موقعہ پرستی کا پورا حملہ نہیں ہونے پاتا تھا، لیکن یہ نہ تھا کہ پورا معاشرہ اس کا شکار ہو جائے اور اس بہاؤ میں بہہ جائے ،ایسا نہیں ہوتا تھا، ایک آدمی بیٹھا ہے، خدا کا بندہ اور سارے شہر میں ایک گرمی سی معلوم ہوتی ہے، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء دہلی میں بیٹھے تو معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کا مرکز ثقل یہی ہے ، کیا سرکار، کیا دربار، کیا امیر، کیا وزیر، کیا شاعر کیا ادیب ، کیا عالم، ساری مخلوق ان کی طرف چلی آرہی ہے، پھر خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی کا دو رآیا اور سارا ماحول روشنی او رگرمی سے معمور ومخمور ہو گیا، ہر شہر میں ایسا رہا ہے، آپ اپنے کشمیر ہی کو دیکھ لیجیے، یہاں الله کا ایک شیر آیا، حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی  اور سارے خطہ کو انہوں نے مسلمان بنا دیا اور آج بھی ان کے خلوص کی برکت ہے، ان کی للہیت کی برکت ہے، ساری خرابیوں کے باوجود بھی یہاں مسلمان ہیں، یہ کیا تھا؟ یہ وہی قلب کی حرکت وحرارت ہے، ایک قلب اس کا تناسب کیا ہوتا ہے، آپ دیکھیے جسم انسانی کتنا بڑا ہے اور قلب کتنا چھوٹا ہے؟ لیکن یہ چھوٹا سا ٹکڑا ( مضغہٴ گوشت) سارے جسم پر حکومت کرتا ہے اور سارے جسم کا صلاح وفساد اس سے مربوط ہے، خواص میں تعطل پیدا ہونا ، خواص میں دنیا طلبی آنا ، خواص میں دولت پرستی کا آنا، خواص میں انتشار پیدا ہونا اصل خطرے کی بات ہے۔

میں ایک واقعہ سناتا ہوں، ایک بزرگ نے سنایا کہ حیدرآباد میں ایک بزرگ کے گُھٹنے میں درد ہو گیا تھا تو میں اس میں قیروطی مل رہا تھا( جو وجع مفاصل اور جوڑوں کے درد کے لیے مفید ہے) ا ن کے خدام، معتقدین، مریدین کا بڑا حلقہ تھا، جب مجلس میں بیٹھتے تھے، خاموش مؤدب، بالکل معلوم ہوتا تھا کہ سب کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔”کأن علی رؤسھم الطیر“ حضرت فرماتے ہیں، سب سنتے ہیں، اس دن معلوم نہیں کہ کیا بات ہوئی کہ ایک یہاں سے بولا، ایک نے بات کہی، ایک نے اس کو کاٹا، کسی نے اس کا جواب دیا اور بالکل معلوم ہوتا ہے کہ بزرگوں کی مجلس نہیں ہے، ہم کسی منڈی میں پہنچ گئے ہیں، مچھلی بازار یا سبزی منڈی میں ، ادھرسے شور، اُدھر سے شور، مجھے بڑا تعجب ہوا کہ آج ہوا کیا؟ آج یہ کیا نئی بات ہے کہ یہاں بزرگ اپنی پوری خصوصیات کے ساتھ بنفس نفیس موجود لیکن آج معلوم ہوتا ہے کہ جیسے لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ بزرگ سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، انہوں نے میرا استعجاب وحیرت دیکھی تو گھٹنے کی طرف اشارہ کیا، میں سمجھا کہ یہاں درد زیادہ ہو رہا ہے تو میں وہاں ملنے لگا، پھر مجھے تعجب ہوا کہ لوگ اب بھی خاموش نہیں ہو رہے ہیں تو انہوں نے پھر گھٹنے کی طرف اشارہ کیا، تو میں ادھر ملنے لگا، میں نہیں سمجھا کہ بات کیا ہے ، اس وقت وہ بزرگ میرے کان کے پاس منھ لائے اور فرمایا کہ گھٹنے کے درد کی وجہ سے میں رات کے معمولات پورے نہیں کرسکا ہوں، اس کی بے برکتی اور اس کی نحوست ہے، جو تم دیکھ رہے ہو ، اچھا میں پوچھتا ہوں کہ ایک بزرگ کے اپنے معمولات کے چھوڑ دینے کا جب یہ نتیجہ محفل پر ہوا تو کثیر التعداد خواص کے اپنے معمولات کے چھوڑ دینے کا کیا نتیجہ ماحول او رمعاشرہ پر ہو گا؟ اب آپ ضرب لگائیے کہ ایک کا اثر اتنا تو چار کاکتنا ، تو آٹھ کا کتنا، تو پچاس کا کتنا؟ تو اگر کسی جگہ کے سب خواص ایسے ہو جائیں، (خدا نخواستہ) تو کیا حال ہو گا؟ اکبر الہٰ آبادی مرحوم نے اسی حالت کو دیکھ کہا ہے #
        رحم کر قوم کی حالت پہ تو اے ذکرِ خدا
        بے ادب ہو گئی محفل تیرے اٹھ جانے سے

جب خواص کو عوام دیکھیں کہ دولت کی اہمیت ان کے دل میں بھی وہی ہے ، عہدہ اور عزت کی اہمیت ان کے دل میں بھی وہی ہے جو ہمارے دل میں ہے تو بتائیے کہ پھر عوام پرکیا اثر پڑے گا؟ کسی زمانہ میں خواص کا عالم تو یہ تھا کہ الله کا ایک بندہ ایک جگہ بیٹھا ہوا ہے اور وہ وہاں کے بادشاہوں اور حاکموں کو منھ نہیں لگاتا، ایک بزرگ کا میں واقعہ سناتا ہوں، ان کا نام ہے ، شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلام، سلطان العلماء کا خطاب تھا، اپنے زمانہ کے بہت بڑے (شاید سب سے بڑے ) شافعی عالم تھے، دمشق میں قیام تھا، بادشاہ وقت کی کسی بات پر خطبہ میں نکیر کی، بادشاہ نے ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا جو علماء کے ساتھ نہیں کرنا چاہیے تھا، بے رخی اور بے توجہی، اس کے بعد وہاں کہیں سے اس کے معزز مہمان آئے، وہ بھی اپنے یہاں کے بادشاہ اور حاکم تھے، ان کو معلوم تھا کہ اس ملک کے سب سے بڑے عالم شیخ عز الدین بن عبدالسلام ہیں اور آج کل وہ معتوب ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایسا کوئی عالم ہوتا تو ہم اس کو سر پر بٹھاتے، تعجب ہے کہ آپ اپنے یہاں کے ایسے عالم کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں ، بادشاہ نے بُرا نہیں مانا، اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، لیکن بادشاہ تو بادشاہ ہی ہوتے ہیں، اس کو یہ خیال ہوا کہ اگر میں ایسے ہی چپ چاپ معافی مانگ لوں اور کہوں مجھ سے غلطی ہوئی تو میری سبکی ہوگی اور میرا رعب کم ہو جائے گا۔ تو خواصمیں سے کسی کو بلایا اورکہا کہ دیکھو! حضرت سے یہ کہنا کہ میں کسی مجلس میں بیٹھا ہوا ہوں تو تشریف لائیں اور دست بوسی کر لیں، میرا احترام قائم رہے گا، لوگ بھی دیکھ لیں گے، اس کے بعد بات رفع دفع ہو جائے گی ، جب کسی نے ان سے جاکر کہا تو انہوں نے کہا کہ تم کس خیال میں ہو ؟ والله میں تو اس پر بھی راضی نہیں کہ وہ میری دست بوسی کرے، چہ جائیکہ میں اس کی دست بوسی کروں، یہ لفظ تاریخ میں موجود ہے، بالکل ان کے الفاظ”لا ارضی ان یقبل یدی فضلاً عن ان اقبل یدہ“ ایسے ہی ہمارے دہلی کے ( جو حقیقی سلاطین دہلی کہلانے کے مستحق ہیں ) بہت سے مشائخ عظام کا بھی یہی حال تھا۔ بادشاہ دہلی نے ایک مرتبہ حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں سے کہا الله نے مجھے بڑی دولت دی ہے، حکومت دی ہے ، کچھ قبول فرمائیں، فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿قل متاع الدنیا قلیل﴾دنیا کی متاع قلیل ہے، اس قلیل میں سے ایک قلیل ٹکرا ہندوستان ہے، پھر اس میں سے ایک قلیل ٹکرا وہ جو آپ کے قبضہ میں ہے، (مثل مشہور تھی، سلطنت شاہ عالم از دہلی تا پالم) اگر اس اقل قلیل میں سے بھی حصہٴ بٹاؤں تو کیا رہ جائے گا؟ ایسے ہی ایک مرتبہ بادشاہ نے کہا کہ میں ایک رقم پیش کرتا ہوں، آپ نے معذرت کی، بادشاہ نے کہا غرباء میں تقسیم فرمائیں ، فرمایا مجھے اس کا بھی سلیقہ نہیں، آپ اپنے لوگوں کے ذریعہ تقسیم کرادیں ، یہاں سے بانٹتے چلے جائیے، قلعہ تک پہنچتے پہنچتے ختم ہوجائے گی، نہ ختم ہو گی تو وہاں جاکر ختم ہو جائے گی ،ایسے ہی سیکڑوں قصے ہیں۔

یہ مثالیں تھیں، جو لوگوں کے دلوں میں گرمی پیدا کرتی تھیں۔ دنیا کی ، مال کی محبت فطرتِ انسانی ہے﴿اِنہ لِحُبِّ الخَیر لَشَدِیدٌ﴾مال کی محبت انسان کی فطرت میں داخل ہے ، لیکن اس کے مقابلہ میں یہ مثالیں جب آتی تھیں، استغنا کی، بے نیازی کی، دنیا کے جاہ وحشم سے بے رغبتی کی، تو لوگوں میں ایمان تازہ ہو جایا کرتا تھا اور قوتِ مقابلہ بھر آتی تھی اور پھر مسلم معاشرہ تنکے کی طرح نہیں بہتا تھا، جیسے آج بہتا ہے۔

خواص کے لیے صرف حیات وحرکت ہی کافی نہیں، بلکہ حرارت بھی ضروری ہے اور حرارت کہاں سے پیدا ہوتی ہے ؟ حرارت پیداہوتی ہے ذکر الله سے، حرارت پیدا ہوتی ہے دعا اورمناجات وتوکل سے، الله کے راستہ میں تکلیف او رکچھ مجاہدے کرنا پڑیں تو دل میں حرارت پیدا ہوتی ہے، یہ فقر وقناعت کے قصے جو آپ تاریخ میں پڑھتے ہیں اور یہ حضرات جن کے قصّے ہیں انہوں نے کسی مجبوری سے اس کو نہیں اختیار کیا تھا، یہ ان کے دل کی آواز تھی اور اس مجبوری سے ضرور اختیار کیا تھا کہ وہ اپنے دل سے مجبور تھے، یعنی اندر سے کوئی ان کے یہ کہتا تھا کہ نہیں یہ نہیں۔ ہو سکتا، ہم دولت کے بندے نہیں ہیں ، ہم طاقت واختیار کے بندے نہیں ہیں۔

اس کی ضرورت ہے کہ یہ خواص کا طبقہ باقی رہے، اپنی خصوصیات کے ساتھ اس میں زندگی رہے، اس میں حرکت رہے، اس میں حرارت رہے اور کوئی جگہ ،کوئی مقام الله کے ان بندوں سے خالی نہ ہو ، جن کو کوئی تہمت نہیں لگا سکتاتھا کہ یہ بک گئے، ہزار تہمتیں سہی، فلاں نے غلطی کی، فلاں کے علم میں فلاں کمی ہے، فلاں چیز نہیں بتائی، لیکن یہ بِک گئے، کسی کو یہ تہمت نہ لگائی جاسکے، یہ سمجھیے کہ امت کی حفاظت کا گُر ہے کہ ایک ہی دوآدمی چاہے ہوں، لیکن ایسے ہوں کہ شکوک وشبہات سے بالاتر ہو چکے ہوں﴿ماعلمنا علیہ من سوءٍ﴾ جو حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق امرأة العزیز نے یہ بات کہی تھی جب بادشاہ نے پوچھا کہ آخر قصّہ کیا ہے؟ تمام شہر میں چرچا ہے، تو اس نے کہا :﴿ما علمنا علیہ من سوءٍ﴾سچی بات یہ ہے کہ کوئی کمزوری ہم نے ان میں نہیں دیکھی تو آج بھی امرأة العزیز ہی کا مقابلہ ہے، دولت کو امرأة العزیز زلیخا کہہ لیجیے، طاقت کو زلیخا کہہ لیجیے، وجاہت کو زلیخا کہہ لیجیے اور یوسف علیہ السلام مصری یوسف عزیز کون ہیں؟ اہل دین کو ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی اس کو خرید نہ سکے اور سب شہادت دیں کہ ﴿ما علمنا علیہ من سوءٍ﴾درودیوار سے یہ آواز آئے کہ کھرا سونا ہے ،جس کا جی چا ہے پرکھ لے، سچی بات یہ ہے کہ امّت کا مزاج، جو اس وقت تک باقی ہے، انہیں بندگان خدا او راہل دل کی وجہ سے ہے کہ جن کی وجہ سے یہ امت ہو ا میں اڑ نہیں گئی، جیسے اور امتیں خشک پتوں، تنکے کی طرح اڑ گئیں، یا پانی میں بہہ نہیں گئی، جیسی اور امتیں خس وخاشاک کی طرح بہہ گئیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس ملت کی ہدایت اور اس کے دینی احتساب کا کام جاری ہو، نمازوں میں ترقی ہو رہی ہے ، اس پر نظر ہو کہ تناسب کم ہو رہا ہے ؟ یا بڑھ رہا ہے ؟ مسجدیں خالی ہو رہی ہیں یا کہ بھر رہی ہیں ؟ قمار خانے زیادہ آباد ہیں کہ مسجدیں زیادہ آباد ہیں؟ مسلمانوں میں کوئی نئی بیمار ی تو نہیں پھیل گئی، مثلاً شراب نوشی، قمار بازی ، یا کسی خراب عادت او ربیماری کی ترقی تو نہیں ہے ؟ اس سب کی فکر رکھنا اور اس سے متفکر اور غمگین ہونا، اس کا صدمہ ہونا ہے کہ مسلمانوں میں یہ چیز غلط پھیل رہی ہے، اچھی چیز ختم ہو رہی ہے ، خواص امت کا فریضہ اور طبعی وظیفہ ہے، یہ تبلیغی جماعت کا بڑا کارنامہ ہے کہ اس نے خواص کو عوام تک پہنچا دیا، پہلے عوام کو خواص کے پاس لاتے تھے، اس نے خواص کو عوام سے جوڑ دیا، میں یہ نہیں کہتا کہ یہی واحد طریقہ ہے ،لیکن عوام سے ربط ہونا چاہیے، ان کے پاس جانا چاہیے، محلوں او رگلیوں میں جانا چاہیے، تاکہ دیکھا جاسکے کہ دین بڑھ رہا ہے ، یا گھٹ رہا ہے، ترقی ہے کہ تنزلی ہے؟کیا چیز نئی پیدا ہوئی؟ اکبر الہٰ آبادی نے کہا ہے #
        نقشوں کو تم نہ جانچو لوگوں سے مل کے دیکھو
        کیا چیز جی رہی ہے کیا چیز مر رہی ہے؟

حضرات! میں اس وقت اس حال میں نہیں ہوں کہ اس سے زیادہ عرض کروں اور نہ اس کی ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مغز کی بات ہو چکی، آخر میں حدیث شریف برکت کے لیے دہراتا ہوں:”قال رسول الله صلی الله علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم:”الا ان فی الجسد معضفة إذا صلحت صلح الجسد کلہ، وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وھی القلب․“

Flag Counter