بیعت ہوئے تو یہ شعر پڑھا ؎
چھوڑ کر درس و تدریس و مدرسہ
شیخ بھی رندوں میں اب شامل ہوا
اس میں بظاہر درس و تدریس کی توہین محسوس ہوتی ہے۔اس لیے یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ پہلے منطق و فلسفہ کا غلبہ تھا، اب عشقِ الٰہی کا غلبہ ہے،علم درجۂ ثانوی ہوگیا اور مولیٰ درجۂ اوّلیں ہوگیا،مدرسہ ہم کو عالمِ منزل کرتا ہے اور اللہ والوں کی صحبت اور عشق و محبت کی آہ و فغاں جو اللہ والوں کی جوتیوں سے ملتی ہے یہ ہمیں بالغِ منزل کرتی ہے۔ تو اس شعر میں درس و تدریس و مدرسہ چھوڑنا مراد نہیں ہے بلکہ درس و تدریس و مدرسہ کے علوم پر اللہ تعالیٰ کی محبت کو غالب کرنا ہے، ان علوم پرعمل کرکے اپنے کو بالغ منزل بنانا ہے۔ اور یہ چیز خانقاہوں سے ملے گی۔ مدرسے ہم کو عالم منزل کرتے ہیں اور اللہ والے ہمیں بالغ منزل کرتے ہیں۔بتائیے!مولیٰ افضل ہےیا نہیں؟ لیکن علم مولیٰ بھی ضروری ہے اور درس و تدریس بھی ضروری ہے، کچھ علماءایسے ہونے چاہئیں جن کا علم زبردست ہو لیکن ان کے علم پر اللہ کی محبت غالب ہو۔ عالم پر عشقِ الٰہی غالب ہو تو اس کے علم کی چاشنی بڑھ جائے گی۔
چاشنی پر ایک قصہ یاد آیا، برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ایک عالم نے کہا کہ تمہارے بیان میں مجھ کو زبردست دردِ دل محسوس ہوا۔ میں نے فوراً اللہ تعالیٰ سے مانگا کہ اے خدا!اس مضمون کو میری زبان سے شعر میں تبدیل فرما دیجیے تو فوراًایک شعر بن گیا، آپ کو اپنا میڈ ان برطانیہ شعر سنارہا ہوں ؎
اس طرح دردِ دل بھی تھا میرے بیاں کے ساتھ
جیسے کے میرا دل بھی تھا میری زباں کے ساتھ
عشق ہوسناک کی منازلِ ناپاک
اسی لیے اپنے احباب اور اپنے نفس سے کہتا ہوں کہ اگر اللہ کی محبت کا درد لینا ہے اور رشکِ لذتِ کائنات لینا ہے بلکہ رشکِ لذتِ دو عالم لینا ہے تو خونِ آرزو کی مشق کرو۔ اللہ کے