بلایا کہ نوٹ کرتے رہو، لڑکے نے سو دفعہ پوچھا کہ کاکا یہ کیا چیز ہے؟ اس نے سو دفعہ جواب دیا اور ناراض بھی نہیں ہوا۔ جب یہ لڑکا بڑا ہوا تو ایک دن اس ہندو نے اپنے لڑکے سے پوچھا کہ بیٹایہ کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ کوّا۔ اس نے تین دفعہ پوچھا تو لڑکے نے جواب دیا لیکن چوتھی دفعہ ڈانٹ کر کہا کہ کیا میں آپ کو یہی بتاتا رہوں؟ مجھے بزنس بھی کرنا ہے، بہت کام ہیں تو اس نے منشی سے کہا کہ میرا کھاتہ لاؤ پھر اپنے لڑکے سے کہا کہ دیکھ ظالم جب تو چھوٹا سا تھا تو تُونے مجھ سے سو دفعہ پوچھا اور میں نے سو دفعہ تیرے ناز اُٹھائے، اب میں بڈھا ہوگیا ہوں تو تو بھی کاکا کے ناز اٹھا۔ باپ تو چھوٹے بچوں کی انگلی پکڑتا ہے لیکن جب باپ بڈھا ہوجائے تو تم بھی اس کی انگلی پکڑو،جب ماں باپ بلائیں تو فوراً ان کے پاس جاؤ، ان کے بلانے پر نفل نماز تک توڑنے کا حکم ہے، اگر ان کو پتا نہ ہو کہ یہ نفل پڑھ رہا ہےاور وہ کسی کام سے بلائیں تو فوراً نماز توڑ کر ان کے پاس جاؤ لیکن اگر ان کو علم ہو کہ یہ نماز پڑھ رہا ہے تب نماز توڑنا واجب نہیں۔ بہرحال ماں باپ کے بڑے درجے ہیں۔
ایسے ہی پڑوسیوں کا بھی خیال رکھو،یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جو بڑے بوڑھے کا ادب کرے گا اس کی زندگی بڑھا دی جائے گی لہٰذا جو محلہ کا بڑا بوڑھا ہو اس کا اکرام کرو، اس اکرام کی برکت سے اس کی عمر بڑھادی جائے گی اور اس کو بھی اکرام کرنے والے ملیں گے۔ حدیث میں تو اتنا ہی کہ جنہوں نے اپنے بڑوں کا اکرام کیا ہے اللہ ان کے چھوٹوں سے ان کو اکرام دے گا اور جنہوں نے اپنے بڑوں کے ساتھ بدتمیزی کی ان کے چھوٹوں نے ان سے بدتمیزی کی۔اس لیے محدثِ عظیم ملّا علی قاری فرماتے ہیں کہ جب اپنے بڑوں کا اکرام کرنے والوں کو اللہ ایسے جوان دے گا جو ان کا اکرام کریں گے تو اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کی عمر بڑھائی جائے گی، کیوں کہ جب یہ بوڑھے ہوں گے تب ہی تو ان کے بچے بڑے ہوکر ان کا اکرام کریں گے۔ تو ان کو اکرام کی دولت بھی ملے گی اور درازئ عمر بھی ملے گی۔ یہ تَفَقُّھْ ہے۔
شیخ کی حکم عدولی کرنے والے فیض یافتہ نہیں ہوتے
بس اسی کا مراقبہ کرو کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہوں، خدا سے اسی بات کا غم مانگ لو کہ اے خدا! ہمیں ایسا غم دے دے کہ ہم تجھ کو ناخوش کرکے حرام خوشیوں سے،لعنتی