ہوتے ہیں،ان کے آسمان اور ہوتے ہیں، ان کا گلشن اور ہوتا ہے اور ان کا صحرا اور ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ اپنے ہر عاشق کو ایک الگ عالم دیتے ہیں۔لہٰذا گلشن میں رہتے ہوئے اختر آہِ صحرا کی نعمت سے مشرف کیا جاتا ہے۔یہ اشعار گلشن ہی میں ہوئے ہیں مگر آدھی رات کے بعد کے ہیں، میرے ستّر اسّی فی صد اشعار آدھی رات کے بعد کے ہیں۔
اللہ کی نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ میں اٹھارہ سال کی جوانی میں شاہ عبدالغنی صاحب سے بیعت ہوا اور اپنے شیخ کے ساتھ دس سال جنگل میں گزار دیے۔یہ اس لیے بتاتا ہوں کہ بعض جوان سوچتے ہوں گے کہ معلوم نہیں ان کی جوانی کیسے گزری؟ اب بڑے میاں اللہ والے بن گئے۔ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جوانی فدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی روح کے اندر کروڑہا جوانی دیتا ہے، اس کے بال سفید ہوجائیں گے مگر اندر کی جوانی ضایع نہ ہوگی کیوں کہ اس نے یہ جوانی اللہ پر فدا کی ہے جہاں جاکر ہر فانی چیز باقی ہوجاتی ہے کیوں کہ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں مَا عِنۡدَکُمۡ یَنۡفَدُ جو چیز تمہارے پاس ہے وہ فنا ہونے والی ہے، وَ مَا عِنْدَ اللہِ بَاقٍ9؎ اور جو مجھ پر فدا کروگے وہ غیرفانی ہوجائے گی، اگرچہ تمہارے پاس فانی ہے لیکن مجھ پر فدا کروگے تو میرے خزانے میں داخل ہوکر تمہاری فانی بھی غیر فانی ہوجائے گی۔ یہ قرآنِ پاک کی آیت ہے کہ جو تم اپنے نفس پر خرچ کروگے وہ سب فانی ہوجائے گا کیوں کہ تم خود فانی ہو، فانی پر فانی ہوکر فانی اور باقی پر فانی ہوکر باقی ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جو جوانی اللہ پر فدا ہوتی ہے اس کی جولانی ،طغیانی اور طوفانی ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
ایذائے خلق بلندئ درجات کا باعث ہوتی ہے
ایذائےخلق نے کیا خالق سے بھی قریب
فریاد کا ہر لمحہ سہارا لیے ہوئے
اس شعر کی شرح یہ ہے کہ جب مخلوق ستاتی ہے تو خدا یاد آتا ہے یا نہیں؟ اس لیے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ؎
_____________________________________________
9؎ النحل:97