بڑھ گیا ان سے تعلق اور بھی
دشمنیِ خلق رحمت ہوگئی
بندہ ہر وقت فریاد کررہا ہے کہ اللہ ان دشمنوں سے بچا۔ تو توفیق مناجات ہوئی کہ نہیں؟ اگر دشمن مضر ہوتے تو اللہ اپنے پیاروں اور نبیوں کو دشمن نہیں دیتا۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا ہم نے ہر نبی کو دشمن دیے ہیں۔10؎ مگر یہ جَعَلۡ تکوینی ہے، دشمنوں کو اس ستانے کا ثواب نہیں ملے گا بلکہ ان کی تو پٹائی ہوگی مگر اپنے پیاروں کی مٹھائی کے لیے دشمنوں کو مقرر کردیا تاکہ تم انہیں ستاؤ اوریہ رو رو کر ہمیں خوب یاد کریں۔ جو غم تم انہیں دے رہے ہواس غم سے ہم ان کے ایمان کی اعلیٰ درجے کی بریانی تیار کرتے ہیں۔اگر دشمن مضر ہوتے تو اللہ اپنے نبیوں اور پیاروں کو دشمن نہیں دیتا۔ کوئی ابا اپنے پیارے بیٹے کو مضر چیز دے گا؟ تو اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو مضر چیز کیسے دے گا۔ لہٰذا اگر دشمن پیدا ہوجائیں تو گھبراؤ مت، اللہ تعالیٰ سے رجوع رہو، اگر وہ دھمکی بھی دیں کہ ہم ایسا کردیں گے تو سمجھ لو کہ اگر اللہ سے رجوع رہے اور گناہ سے بچتے رہے اور اللہ سے فریاد کرتے رہے پھر اگر کوئی دھمکی دیتا ہے تو اللہ اس کو دھمک دیتا ہے۔ ایک دن دنیا دیکھے گی کہ دھمکنے والے دھمک دیے گئے ہیں، بے دست وپاپڑے ہوئے ہیں اور ان کو اپنی نالائقی پر ندامت طاری ہے۔
خالق سے محبت اور مخلوق سے محبت میں فرق
یہ دل ہے ان کے درد کا مارا اے دوستو
سینے میں محبت کا منارہ لیے ہوئے
یہ بہت رومانٹک شعر ہے، اب اس کی شرح سن لیں، بعض لوگ کہیں گے کہ ہمیں تو دنیاوی ٹیڈیوں اور لونڈوں کی محبت کا درد ہے۔ تو اللہ کی محبت کا درد اور مخلوق کی محبت کا درد ان دونوں دردوں میں کیا فرق ہے؟ جو اللہ کی محبت کے درد کے مارے ہیں وہ مرتے دم تک ہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی درد کے مارے رہتے ہیں اور میدانِ محشر میں بھی ان کے درد ِ دل کو تاجِ
_____________________________________________
10؎ الانعام:112