ذکر آئے تو اس سے مراد اللہ کی محبت کا غم ہےیعنی اللہ تعالیٰ کی شریعت کا بوجھ خوشی خوشی اٹھالو اور نافرمانی خوشی خوشی چھوڑ دو۔ یہاں غم سے مراد اللہ کی محبت کا غم ہے اور یہ وہ قیمتی غم ہے جو خدا اپنے دوستوں کو دیتا ہے،اس کی برکت سے آدمی دونوں جہاں کے غم سے نجات پاجاتا ہے۔ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے ؎
تیرے غم کی جو مجھ کو دولت ملے
غمِ دو جہاں سے فراغت ملے
محبت تو اے دل بڑی چیز ہے
یہ کیا کم ہے کہ جو اس کی حسرت ملے
بس ہر وقت یہی غم رہے کہ اب تک ہم کو اللہ نہیں ملا،ہم کتنے نالائق ہیں کہ نفس کے غلام بنے ہوئے ہیں۔ تو اللہ کی محبت کا یہ غم بھی نعمت ہے، اسے حاصل کرنے کے لیے حوصلے اور ہمتِ شیرانہ سے کام لو۔ واللہ! قسم کھاکر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ہم کو گناہوں سے بچنے کی ہمتِ شیرانہ دی ہے، طاقتِ شیرانہ دی ہے ، مگر ہم اس طاقت کو استعمال نہیں کرتے۔
ہر انسان میں گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے
ہم میں دنیاوی خوف تو اتنا ہے کہ تھانے دار کا حسین بیٹا یا بیٹی سامنے ہو اور وہ پستول نکال کر کہے کہ دیکھتا ہوں کہ تو میرے بیٹے یا بیٹی کو کیسے دیکھتا ہے۔ پھر دیکھتا ہوں کہ تمہاری آنکھ کیسے اُٹھتی ہے،وہاں تمہاری طاقتِ شیرانہ اندر سے باہر آجاتی ہے لیکن اللہ کی محبت میں طاقتِ شیرانہ استعمال کرنے کے بجائے لومڑیانہ زندگی گزارتے ہو۔ بولو!یہ اللہ سے بے وفائی ہے یا نہیں؟ اگر ایک تھانے دار کہے کہ میرا بیٹا یا میری بیٹی بہت نمکین ہے، اگر ان کو دیکھا تو یاد رکھنا میرے ہاتھ میں پستول بھی ہے۔ وہاں تو آپ کی طاقتِ شیرانہ ظاہر ہوجاتی ہے لیکن خالقِ شیر کے حکم سے، جس اللہ نے شیروں کو پیدا کیا ہے،اس اللہ کی محبت میں یہ حوصلہ یہ شریفانہ جذبات کیوں نہیں اُبھرتے کہ ہم اپنے مالک کو خوش کرکے اپنی شرافتِ بندگی کا ثبوت پیش کریں کہ اللہ تعالیٰ بھی کہیں کہ شاباش! میرے یہ بندے میرے نمک خوار ہیں، نمک حرام