Deobandi Books

لذت ذکر کی وجد آفرینی

ہم نوٹ :

22 - 34
کوئی تو بات تھی کہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے بھی حضرت کو اپنا پیر بنایا تھا اور باقاعدہ اصلاحی خط لکھتے تھے کہ کاغذ کے ایک طرف اپنا حال لکھتے تھے اور ایک طرف جواب کے لیے خالی حصہ چھوڑتے تھے۔
آہ! ایک دن تھا کہ میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی مجلس ہوتی تھی، فجر کے بعد حضرت مجلس فرماتے تھے،  سیتا پور لکھنؤ کے بڑے بڑے علماء اور میرے شیخ ثانی حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب سب آتے تھے اور ادب سے بیٹھے رہتے تھے، میں بھی بیٹھا ہوتا تھا اور حضرت کی باتوں کو نوٹ کرتا تھا، سارا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے کہ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہیں اور ہم لوگ ان کے ساتھ بیٹھے ہیں،میرے سامنےہروقت حضرت کا اور اپنے بزرگوں کا نقشہ سامنے رہتا ہے، اللہ والوں کی غلامی بہت بڑی نعمت ہے، اس کے سامنے سلطنت کیا چیز ہے، اللہ والوں سے بڑھ کر کون بادشاہ ہوگا۔ جس کے دل میں اللہ ہو، جس کے ساتھ اللہ ہو اس کی قیمت کا کیا حق ادا ہوسکتا ہے۔
استقامت علی التقویٰ کی ایک عجیب و غریب مثال
بزرگوں کی چند باتیں یاد آگئیں اس لیے عرض کردیں۔ اب وہ مضمون پیش کرتا ہوں جس کا میں نے وعدہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کے قلب میں ایک نور داخل کرتے ہیں جس کا ثبوت قرآنِ پاک کی ایک آیت اور حدیث شریف سے پیش کرتا ہوں، آیت ہے:
وَ جَعَلۡنَا لَہٗ نُوۡرًا یَّمۡشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِہم ان کو ایک نور دیتے ہیں جو ا س شعر کا مصداق ہے     ؎
شکر ہے  دردِ  دل مستقل ہوگیا 
اب تو شاید مرا دل بھی دل ہوگیا
مطلب یہ کہ اللہ والے سارے عالم میں جہاں بھی جاتے ہیں لندن ہو، جرمنی ہو، بزنس ہو، بیوپار ہو، یہ اپنے قلب میں اس نور کو لیے رہتے ہیں، میرا نور ان کو کھینچے رکھتا ہے، مجال نہیں کہ 
_____________________________________________
5؎    الانعام:122
Flag Counter