Deobandi Books

لذت ذکر کی وجد آفرینی

ہم نوٹ :

23 - 34
اِدھر اُدھر عورتوں کو، ٹیڈیوں کو دیکھ لیں  ؎
ناریاں بر ناریاں را  جاذب اند
نوریاں بر نوریاں را طالب اند
ان کے نور کو میرا نور کھینچے رکھتا ہے۔ جیسے کمپاس یعنی قطب نما کو جدھر چاہے گھما لو اس کی سوئی ہمیشہ شمال کی طرف رہتی ہے کیوں کہ اس سوئی  کی نوک پر مکھی کے سر کے برابر مقناطیس لگا رہتا ہے اور مقناطیس کا مرکز شمال ہے، جب تک سوئی پر مقناطیس لگا ہوا ہے اس کو جدھر چاہے گھماؤ مگر  شمال جو مقناطیس کا مرکز ہے اس کی لہریں اس سوئی کو اپنی طرف کھینچے رکھتی ہیں لیکن اگر سوئی کی پالش کھرچ دو پھر کمپاس کو جدھر چاہو گھما لو اس کی سوئی نہیں تڑپے گی۔ اللہ کے نور کی لہریں سارے عالم میں موجود ہیں، جو لوگ اللہ اللہ کرتے ہیں ان کے قلب کی سوئی میں اس نور کی پالش لگ جاتی ہے لہٰذا ان لہروں کی و جہ سے ان کے دل  کا قبلہ ہر وقت حق تعالیٰ کی طرف رہتا ہے، اگر ان سے کبھی کوئی گناہ ہوجائے یا کوئی حسین اپنی طرف کھینچے تو ان کادل تڑپنے لگتا ہے جب تک کہ پھر سے اپنا رخ صحیح نہ کرلیں۔ اسی لیے جب اللہ کسی بندے کو اپنا نور دیتا ہے تو اس نور کی وجہ سے وہ سارے عالم میں جہاں جاتا ہے اﷲ ہی کا بن کر رہتا ہے۔ اس آیت میں النَّاسِ میں الف لام  استغراق کا ہے یعنی اس سے جرمن مستثنیٰ نہیں ہے، لندن کا ایئرپورٹ مستثنیٰ نہیں ہے، وہ جہاں بھی جائے گا وہ نور اس کو اﷲسے غافل نہیں ہونے دے گا، اس کو اللہ تعالیٰ سے وصل دوام رہے گا، اس کو فصل عارضی بھی نہیں ہوسکتا، وہ فصل عارضی بھی برداشت نہیں کرسکتا ، اللہ والا اپنے اللہ کی جدائی کو برداشت نہیں کرسکتا، وہ جان بوجھ کر بھلانا بھی چاہے کہ اس وقت اللہ میاں یاد نہ آئیں میں ذرا گناہ کامزہ لینا چاہتا ہوں تو بھی اس کے دل سے اللہ کا خیال اوراس کی عظمت نہیں ہٹے گی۔ خواجہ صاحب کا شعر ہے     ؎
بھلاتا ہوں پھر بھی وہ یاد آ رہے ہیں
لہٰذا اگر چاہتے ہو کہ ہم اللہ سے ایک سانس بھی دور نہ ہوں اور ہر گناہ سے بچے رہیں تو یہ نور حاصل کرلو، یہی نور حاصل کرنے کے لیے ہم سمندر کے کنارے آئے ہیں،وَجَعَلۡنَا لَہٗ نُوۡرًا یَّمۡشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ اﷲ والے اپنے دل میں ہر وقت اس نور کو لیے رہتے ہیں۔ اس
Flag Counter