ذکر کا ایک مفید طریقہ
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ کہتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میری روح میں دودھ اور شکر گھل گیا ہے ؎
اﷲ اﷲ ایں چہ شیرین ست نام
شیر و شکر می شود جانم تمام
میرے مرشدِ اوّل شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بارہ مرتبہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور ایک مرتبہ اس طرح زیارت نصیب ہوئی کہ حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ میں نے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی مبارک آنکھوں کے لال لال ڈورے بھی دیکھے اور خواب ہی میں پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا عبدالغنی نے آپ کو خوب دیکھ لیا؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں عبدالغنی! تم نے رسولِ خدا کو خوب دیکھ لیا۔ تو حضرت نے ہم کو اس طرح ذکر سکھایا تھا کہ جب اللہ کہو تو یہ تصور کرو کہ زبان سے بھی اللہ نکل رہا ہے اور دل میں ایک زبان ہے اس سے بھی اللہ نکل رہا ہے، دونوں زبانوں سے اللہ نکل رہا ہے۔ اور اللہ کو اتنا کھینچ کر ادا کرو کہ اس میں ہماری آہ بھی شامل ہوجائے، جب اللہ کہو تو سمجھ لو میرےجسم کے ہر بال سے اللہ نکل رہا ہے، سمندر کے ہر قطرے سے اللہ نکل رہا ہے، درختوں کے ہر پتے سے اللہ نکل رہا ہے، ستاروں سے اللہ نکل رہا ہے، سورج اور چاند سے اللہ نکل رہا ہے، آسمان سے اللہ نکل رہا ہے، ریت کے ایک ایک ذرّے سے اللہ نکل رہا ہے، سارا عالم اللہ اللہ کہہ رہا ہے۔ پھر فرمایا کہ اس طرح ذکر کرو پھر دیکھو کیسا مزہ آتا ہے۔
پرندے کا چھوٹا سا بچہ جس کے ابھی پَر بھی نہیں نکلے وہ آسمان کی طرف دیکھتارہتا ہے کیوں کہ اس کی قسمت میں اُڑنا ہے۔ آہ! جس کو اللہ والا ہونا ہے، اس کے دل میں بچپن ہی سے اللہ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا کیسا استدلال ہے؎
ہم چوں فرخ میل او سوئے سماء
منتظر بنہادہ دیدہ در ہوا