Deobandi Books

لذت ذکر کی وجد آفرینی

ہم نوٹ :

24 - 34
آیت کی تفسیر پر خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے    ؎
پھر تا ہوں دل میں یار کو مہماں کیے ہوئے
روئے   زمیں    کو    کوچۂ    جاناں    کیے     ہوئے
اللہ کے عاشقوں کا کوچۂ جاناں یعنی محبوب کی گلی پورا عالم ہے، وہ جہاں جاتے ہیں اللہ کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں، یَمۡشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ اس نور کو ساتھ رکھنا گویا خدا کو ساتھ رکھنا ہے، وہ کسی وقت اللہ سے دور نہیں ہوتے، ہر وقت اللہ پر فدا رہتے ہیں۔ لہٰذا اگر زندگی کا مزہ لینا ہے تو اللہ پر فدا ہوجاؤ ورنہ گراؤنڈ فلور کے گُو کے کیڑے بنے رہو گے پھر جب موت آئے گی تب پتا چلے گا کہ کہاں مرے تھے، کس پر مرے تھے اور کیوں مرے تھے۔
گناہوں سے دل کا سکون برباد ہوجاتا ہے
رومانٹک دنیا یعنی حسن مجازی کے عاشق جتنے لوگ ہیں یہ اس دنیا میں بھی معذب ہیں، کسی کو چین نہیں ہے۔ جن کے دل میں دھواں ہے ان کا چہرہ بتادیتا ہے کہ اندر آگ لگی ہوئی ہے۔ اللہ والوں کا، اہل تقویٰ کا چہرہ دیکھ لو اور رومانٹک اور بدنظری کرکے جو آئے اس کا چہرہ دیکھ لو، چاہے وہ نمازی بھی ہو، روزہ بھی رکھتا ہو، گول ٹوپی بھی پہنتا ہو لیکن بدنظری کے بعد اس کے چہرے کو دیکھو، اس کے چہرے پر لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ 6؎ کا اثر ہوتا ہے۔
اس لیے کہتا ہوں کہ کب تک ان مُردوں کی پالش دیکھتے رہوگے، اگر میری نہیں مانو گے تو میں نالش کردوں گا، اگر آپ اربابِ دانش ہیں تو میری بات مان لیں۔ ایک پلیٹ ہے اور اس میں غلاظت رکھی ہے جس پر  سونے چاندی کا ورق چڑھا ہے تو کوئی اس کو کھائے گا؟ ہمیں علم الیقین ہے کہ ان حسینوں  کے پیٹ میں نجاست اور غلاظت بھری ہوئی ہے لہٰذا ان کے گالوں کو مت دیکھو،یہ فتنہ اور آزمایش ہے۔ اللہ نے نمکینوں کو پیدا کیا مگر ہمیں حکم دیا کہ تمہارا دل حسینوں کو دیکھنے کے لیے بے چین ہوگا مگر میرے خوف سے اگر تم نے نظر ہٹالی      تو تمہارا یہ بے چین دل میری محبت سے چین پاجائے گا بلکہ دائمی چین پائے گا اور اس بدنظری 
_____________________________________________
6؎    مشکوٰۃ المصابیح:270/1، باب النظر الی المخطوبۃ وبیان العورات، المکتبۃ القدیمیۃ
Flag Counter