Deobandi Books

لذت ذکر کی وجد آفرینی

ہم نوٹ :

21 - 34
رہتے تھے۔ دورانِ تلاوت جب دس بیس آیت کے بعد اللہ کا نعرہ لگاتے تھے تو پوری مسجد ہل جاتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے ریل کے انجن میں اسٹیم زیادہ ہوگئی تو ڈرائیور نے اس کا ڈھکن کھول دیا ہے تاکہ ریل کا انجن زیادہ بھاپ جمع ہونے سے پھٹ نہ جائے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ حضرت اللہ کا یہ نعرہ اس لیے لگارہے ہیں تاکہ اندر کی اسٹیم نکل  جائے۔ جب حضرت اللہ کہتے تھے تو میں اپنے دل کو حضرت کے دل سے ملا لیتا تھا تاکہ کبھی ایسی آہ مجھ سے بھی نکل جائے۔ حضرت روزانہ پانچ پارے تلاوت کرتے تھے، کبھی دس پارے بھی ہوجاتے تھے۔
حضرت ستّر سال کی عمر میں رات تین بجے سے گیارہ بجے تک آٹھ گھنٹے عبادت کرتے تھے۔ایک مرتبہ حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو! آٹھ گھنٹے ہوگئے ہیں، ستّر سال کا بوڑھا ہوں مگر میں نے ابھی تک کمر سیدھی نہیں کی۔ دورانِ عبادت حضرت کے آنسو بہتے رہتے تھے، حضرت کی عبادت زاہدانہ نہیں تھی، عاشقانہ تھی، حضرت ایسے عبادت کرتے تھے جیسے کوئی بھوک میں کباب و بریانی کھارہا ہو۔ جب حضرت کا وعظ شروع ہوتا تھا تو ایک آنسو حضرت کے رخسار پر آکر ٹھہر جاتا تھا۔ ہماری جو انتہا میں کیفیت ہوتی ہے حضرت کی ابتدا وہاں سے ہوتی تھی۔ جب وعظ شروع کیا تو ایک آنسو رخسار پر آکر ٹھہر گیا، وہ چمکتا رہتا تھا، گرتا بھی نہیں تھا، گویا اس نے اپنی سیٹ ریزرو کرالی تھی۔
بہت سے علماء حضرت کی عبادت ہی دیکھ کر عاشق ہو جاتے تھے، مجنوں کی کیا مثال دوں، حضرت جنگل کی فضاؤں میں اپنی انگلی سے اللہ لکھتے رہتے تھے،کبھی ندی کے کنارے بھی جاکر عبادت کرتے تھے۔ حضرت صبح کو ناشتہ نہیں کرتے تھے، فجر کے بعد سے ایک بجے تک عبادت تو خوب ہوتی مگر پانیکا ایک قطرہ بھی نہیں پیتے تھے، بارہ ایک بجے خوب بھوک لگتی تھی پھر دال روٹی میں بھی بریانی کا مزہ آتا تھا۔ اختر نے بھی دس سال تک ناشتہ نہیں کیا کیوں کہ شرم آتی تھی کہ شیخ ناشتہ نہ کریں اور ہم ناشتہ کریں، تو مرید کو شرم آتی ہے، اس لیے میں نے کہا کہ میں بھی ناشتہ نہیں کروں گا، جب آپ کھائیں گے تب کھاؤں گا، آپ نہیں کھائیں گے    تو میں بھی نہیں کھاؤں گا، میں کبھی حضرت کو چھوڑ کر دوستوں میں جاکر ہنستا بولتا نہیں تھا، جب تک حضرت عبادت کرتے تھے میں سنتا رہتا تھا کیوں کہ اتنی عبادت کی مجھ میں طاقت نہیں تھی، جب حضرت قرآن پڑھتے تھے تو میں سنتا رہتا تھا مگر مجھ کو اس میں مزہ بہت آتا تھا۔ آخر 
Flag Counter