Deobandi Books

لذت ذکر کی وجد آفرینی

ہم نوٹ :

20 - 34
عشق  من  پیدا  و  دلبر  نا پدید
در دو عالم ایں چنیں دلبر کہ دید
میرا وضو کرنا اور تین بجے رات کو اٹھنا تو دنیا پر ظاہر ہے، مگر میرا محبوب پوشیدہ ہے جس کے لیے میں راتوں کو اٹھ رہا ہوں، دونو ں عالم میں کوئی ایسا محبوب تو دکھاؤ جو نظر نہ آئے مگر اس کو راضی کرنے کے لیے مسلمان محنتیں اور مشقتیں کرتے ہیں۔ اس شعر سے حضرت کی صبح  کا آغاز ہوتا تھا، اس کے بعد وضو کرکے بارہ رکعات تہجد پڑھتے تھے اور ہر دو رکعات کے بعد اللہ سے اتنا روتے تھے کہ دور تک رونے کی آواز جاتی تھی، دس برس تک حضرت کی آہ و زاری کا یہ منظر اختر نے دیکھا ہے، یہ معمولی نعمت نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے جس کا اختر شکر ادا نہیں کرسکتا۔ حضرت دو رکعات پڑھنے کے بعد جگہ بدل دیتے تھے، ایک جگہ دو رکعات پڑھیں پھر چند قدم دائیں یا بائیں ہوکر دو رکعات پڑھیں ۔ میں نے علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کی مبسوط دیکھی، اس میں لکھا تھا کہ جب نفلیں پڑھو تو جگہ چھوڑ کر پڑھو، لِتَعَدُّدِ الشَّوَاہِدِ عَلَی الْخَیْرِتاکہ تمہاری نیکی کے گواہ تعداد میں زیادہ ہوجائیں۔کیوں کہ زمین کے جن حصوں پر نیک کام کیے جائیں گے وہ سب قیامت کے دن گواہی دیں گے اور تمہاری بھلائی کے گواہوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔ 
قصیدہ بردہ کے سو سے زیادہ اشعار ہیں حضرت سارے اشعار پڑھتے تھے، اس کے بعد بارہ تسبیحات کرتے تھے اور حضرت کی آواز ایسی پیاری تھی کہ ایک دفعہ ہندوؤں کی بارات جارہی تھی اور حضرت فجر کی نماز پڑھا رہے تھے تو بارات وہیں کھڑی ہوگئی، وہاں سے ہٹ نہیں سکی کہ ہم یہاں سے ہٹ نہیں سکتے، یہ عجیب و غریب آواز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے شیخ کو بڑی پیاری آواز دی تھی۔ بارہ تسبیحات کے بعد حضرت فجر کی نماز کی امامت خود فرماتے تھے اور ایسی پیاری نماز پڑھاتے تھے کہ مزہ آجاتا تھا، اس کے بعد مناجاتِ مقبول کی ساتوں منزلیں روزانہ پڑھتے تھے، ہم لوگ ایک منزل بھی نہیں پڑھ پاتے اور حضرت سات منزلیں روزانہ زبانی پڑھتے تھے، دیکھ کر نہیں پڑھتے تھے، پچاس ساٹھ سال سے پڑھتے پڑھتے سب یاد ہوگیا تھا اور حضرت کمر سیدھی کرکے بیٹھتے تھے اور فرماتے تھے کہ کمر نہ جھکا نا ورنہ کبڑے ہوجاؤگے، اور کرتے کے بٹن سب کھلے ہوتے تھے اور بال عجیب مستانہ انداز میں بکھرے 
Flag Counter