Deobandi Books

لذت ذکر کی وجد آفرینی

ہم نوٹ :

19 - 34
سیکھتے تھے۔ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب نے حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب  رحمۃ اللہ علیہ کو اپنا شیخ بنایا تھا اور ان کی خدمت میں ایک ایک ماہ رہتے تھے۔ تو چودہ پہلوان وہاں سے بھاگے، کسی کی ناک کٹ گئی، کسی کا کان پھٹ گیا اور سب چلّا رہے تھے کہ ارے! یہ مدرسہ نہیں ہے، یہ پولیس لائن ہے۔ 
الحمدﷲ! اختر اللہ کے ایسے اولیاء کے ساتھ رہا ہے۔ ہمارے حضرت تو جانتے ہی نہیں تھے کہ خوف کیا چیز ہے۔ ایک مرتبہ حضرت کے ایک جہاد میں مَیں بھی شریک تھا۔ پھولپور کے قریب ایک تحصیل ہے، وہاں مسلمانوں نے ایک چھوٹی سی مسجد بنالی تھی، وہاں سے خبر آئی کہ مسجد شہید کی جارہی ہے، بس حضرت نے اپنی لاٹھی عبدالجبار اٹھائی اور وہاں پہنچ گئے، میں بھی ساتھ تھا، وہاں دیکھا کہ بڑے بڑے تگڑے ہندوں کھڑے ہیں جو دنیاوی لحاظ سے بھی بڑے عہدے والے تھے، ان کے لیڈر تھے، وہاں لیڈروں کو نیتا کہتے ہیں۔ اس وقت میں نے حضرت کا ایمان دیکھا کہ ہندوؤں کے اتنے بڑے مجمع میں فرمایا او خبیثو! نالائق مردودو! اگر مسجد کو ہاتھ لگایا تو تمہاری لاشوں کو اس مسجد کی جڑ اور دیوار کی بنیاد میں دفن کردوں گا۔ حضرت نے ایسی ڈانٹ لگائی کہ سب ہاتھ جوڑنے لگے کہ مولانا! معاف کردو اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ یہ میرے سامنے کا قصہ ہے۔ حضرت کبھی نہیں ڈرے کہ مجمع کیا چیز ہے۔ 
ایک مرتبہ حضرت نے مجھ سے خود فرمایا کہ میں تھانہ بھون سے واپس جارہا تھا کہ ایک بندوق والے سکھ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کردی، میں نے اس کو مارنے کے لیے اپنی لاٹھی اٹھائی، اتنے میں ایک اسٹیشن آگیا،  تو وہ اسٹیشن پر اتر کر اسٹیشن ماسٹر کے کمرے میں گھس گیا، میں نے کہا کہ اگرمرد ہو تو باہر آجاؤ، وہاں مجمع لگ گیا، ٹی ٹی اور     گارڈ سب حیران ہوگئے کہ یہ کون مولانا ہے جو ایک بندوق والے کو اپنی لاٹھی سے مارنے کے لیے کھڑا ہے۔ حضرت کو اللہ نے عجیب و غریب مقام دیا تھا مگر حضرت کی پہلوانی اللہ پر فدا ہوئی۔ حضرت نے دس برس پہلوانی کی، خوب ورزش کی، حضرت کا بدن لوہے کی طرح تھا، جب میں سردی میں حضرت کے ہاتھ پاؤں دباتا تھا تو اتنی طاقت سے دبانا پڑتا تھا کہ مجھے سخت سردی میں پسینہ آجاتا تھا حالاں کہ اس وقت لو گ سوئیٹر اور رضائی اوڑھے ہوتے تھے۔ حضرت نے اپنی پہلوانی کی طاقت اس طرح اﷲ پر فدا کی کہ رات کو تین بجے اٹھتے اور زبان پر سب سے پہلا شعر یہ ہوتا     ؎ 
Flag Counter