Deobandi Books

لذت ذکر کی وجد آفرینی

ہم نوٹ :

17 - 34
ڈوبی رہتی تھی اور اتنی وزنی تھی کہ ہم سے تو اٹھانا بھی مشکل تھا مگر حضرت اسے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر چلاتے تھے، حضرت پہلوان تھے اور ان کا سینہ اتنا آگے کو نکلا ہوا تھا کہ بالکل ناک کی سیدھ میں تھا، حضرت فرماتے تھے کہ تم لوگ تو ایک چمچہ گھی کھاتے ہو اور ہم دال میں ڈیڑھ پاؤ اصلی گھی ڈال کر کھاتے تھے۔ تو حضرت نے عبدالجبار اٹھایا اور کھڑے ہو کر فرمایا خبیثو! تم مجھ کو فسادی کہتے ہو، بس ان دونوں کو دوڑا دیا، دونوں وہاں سے دم دبا کر بھاگ نکلے۔
ایک دفعہ میں اور میرا ایک پیر بھائی اور حضرت اسٹیشن پر ریل کا انتظار کررہے تھے کہ کالج کے بیس نوجوان لڑکے جو ہولی کا تہوار منا رہے تھے، وہ حضرت پر رنگ ڈالنے کے لیے دوڑے۔ ہندوستان میں ہولی کے زمانے میں اگر کسی عالم پر رنگ ڈال دیا جاتا تھا  تو مسلمان مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے تھے، وہ اسے اپنی توہین سمجھتے ہیں کہ ہمارے عالم کی بے عزتی ہوئی۔ ہم دونوں نے سوچا کہ جان دے دیں گے کیوں کہ بیس آدمیوں سے مقابلہ ہے اور سب تگڑے جوان ہیں، ہم نے بھی تیاری کرلی اور میرے شیخ نے بھی اپنی لاٹھی عبدالجبار کو ہاتھ میں لے لیا۔ جب حضرت کو غصہ آتا تھا تو سینہ اور پھیل جاتا تھا، آنکھیں لال ہوجاتی تھیں اور گردن کی رگیں پھول جاتی تھیں۔ ایک ہندو کہتا تھا کہ مولانا جب ڈانٹتے ہیں، غصے میں للکارتے ہیں تو ہم لوگوں کی دھوتی گیلی ہو جاتی ہے۔ تو حضرت نے جب کھڑے ہو کر ان کو للکارا اور کہا خبیثو! اگر تم لال رنگ سے ہولی کھیلتے ہو تو ہم تمہارے خون سے ہولی کھیلیں گے، بس سب بھاگ نکلے۔ 
اللہ نے حضرت کو ایسی ہیبت دی تھی کہ ہندوؤں کے ایک میلے میں جس میں دس ہزار ہندو تھے اور وہ میلہ دس دن تک رہتا تھا، اس میں وہ سیتا رام کا ناٹک دِکھاتے تھے۔ ایک خبیث جن ان کے دیوتا رام کی بیوی سیتا کو لے کر بھاگ گیا۔ بتائیے! ان کے خدا ایسے تھے جن کی بیوی کو کوئی جن لے بھاگا تو اسے چھڑا بھی نہ سکے اور پھر اُس جن نے سیکنڈ ہینڈ کرکے بیوی کو واپس کیا تو اس کو لے بھی لیا، شرم بھی نہ آئی۔
اکبر الٰہ آبادی شاعر ایک مشاعرہ میں شریک تھے، مشاعرہ کا صدر وہاں کا کمشنر تھا، اس کا نام سیتا رام تھا، اکبر الٰہ آبادی نے کمشنر کے نام کے بارے میں کہا      ؎
کچھ  عجیب  ترکیب  ہے  اس  نام    کی
حقیقت  ہی نہیں کھلتی  ہے  سیتا رام  کی
Flag Counter