Deobandi Books

لذت ذکر کی وجد آفرینی

ہم نوٹ :

16 - 34
اور حضرت نے مجھ سے خود فرمایا کہ مجھ کو اتنی پریشانی ہوئی، قیامت کا خوف ایسا غالب ہوا کہ اللہ اگر پوچھے گا کہ تم نے میرے ایک بندے کو اتنا زیادہ کیوں ڈانٹ دیا جبکہ وہ تمہارا شاگرد بھی نہیں تھا، تمہارا مرید بھی نہیں تھا تو میں کیا جواب دوں گا۔ پھر حضرت نے فرمایاکہ میں غم وپریشانی میں راستہ بھول گیا اور کھیتوں میں گھستا ہوا بہت دیر کے بعد وہاں پہنچا، پھولپور سے ایک میل دور تھا، وہاں پہنچ کر اس آدمی سے کہا کہ مجھ کو معاف کردو، آج میں نے تم کو بہت زیادہ ڈانٹا ہے حالاں کہ تم میرے مرید بھی نہیں ہو، شاگرد بھی نہیں ہو۔ اس نے کہا کہ مولانا! آپ تو میرے باپ جیسے ہیں، باپ کو حق ہے کہ بیٹے کو ڈانٹے، آپ نے یہاں آنے کی تکلیف کیوں کی۔ حضرت نے فرمایا کہ دیکھو! باپ کہنے سے ہم باپ نہیں بن جائیں گے، جب تک تم یہ نہیں کہو گے کہ میں نے معاف کردیا، میں یہاں سے نہیں جاؤں گا، کیوں کہ معلوم نہیں قیامت کے دن عبدالغنی کا کیا حال ہوگا۔ بس حضرت معافی مانگ کر واپس آئے اور فرمایا کہ اس رات مجھے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اس طرح زیارت ہوئی کہ دو کشتیاں ہیں، ایک کشتی پر حضورِ اقدس صلی اللہ   علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف فرما ہیں اور پیچھے کچھ فاصلے پر میری کشتی ہے، اس پر میں اکیلا بیٹھا ہوں، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی! مولانا عبدالغنی کی کشتی کو میری کشتی سے جوڑدو، تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میری کشتی کو پکڑا اور گھسیٹ کر حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی کشتی سے کھٹ سے ملا دیا۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ آج تک اس کی کھٹ سے جڑنے کی آواز کا مزہ آرہا ہے۔ حضرت شاعر نہیں تھے مگر اس مضمون کو اپنے ایک شعر میں پیش کیا      ؎ 
مضطرب دل کی تسلی کے  لیے
حکم     ہوتا     ہے     ملا       دو      ناؤ     کو
حضرت میں جو غصہ تھا وہ اللہ کے لیے ہوتا تھا۔ اعظم گڑھ سے پہلے ایک اسٹیشن ہے، وہاں عصر کا وقت ہوگیا ،حضرت کو ایک ریل پکڑنی تھی، حضرت اس اسٹیشن پر نماز پڑھ رہے تھے،    درود شریف پڑھ کر سلام پھیرنے ہی والے تھے کہ دو ہندو ٹھاکر لاٹھی لیے گزرے، انہوں نے آپس میں بات کی کہ یہ مولوی بہت فسادی ہے، ہندو اور مسلمانوں کو لڑواتا ہے، تو حضرت نے سلام پھیر کر اپنی لاٹھی اٹھائی جس کا نام عبدالجبار رکھا ہوا تھا، وہ ہر وقت سرسوں کے تیل میں 
Flag Counter