دل و دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اور شدید بھوک بھی نہ ہو ورنہ اس وقت روٹی میں دھیان لگا رہے گا، جب روٹی، بوٹی اور لنگوٹی میں دھیان ہوگاتو ذکر میں کیا مزہ آئے گا۔ بس ایسا وقت ہو جیسے مغرب کے بعد کا، کیوں کہ اکثر لوگ عشاء کے بعد کھانا کھاتے ہیں، تو ذکر کا بہترین وقت مغرب کے بعد اور فجر کے بعد کا ہے ورنہ جس وقت بھی اللہ موقع دے ؎
نالہ پابندِ نے نہیں ہے
فریاد کی کوئی لے نہیں ہے
اسی طرح ٹہلنا صحت کے لیے ضروری ہے۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن کو صحت کے لیے ٹہلنا ضروری ہے ان کو مسجد میں بیٹھ کر اشراق کا انتظار کرنے سے زیادہ ثواب ٹہلنے میں ملے گا کیوں کہ اگر صحت ہی نہیں رہے گی تو فرض نماز بھی نہیں پڑھ سکے گا، نفل کیاپڑھے گا۔ لہٰذا جو لوگ صحت کے لیے ٹہلنے جاتے ہیں وہ ٹہلنے کے بعد واپس آکر اشراق پڑھ لیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فجر پڑھ کر جنگل میں چلے جاتے تھے، اشراق بعد میں پڑھتے تھے۔ حضرت اس جنگل میں ٹہلتے ہوئے روزانہ پانچ پارے پڑھتے تھے۔ تھانہ بھون کے سامنے وہ جنگل میں نے دیکھا ہے جس کے متعلق حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مجھے دنیا میں جو کچھ ملتا ہے، جو علوم عطا ہوتے ہیں اسی جنگل میں عطا ہوتے ہیں کیوں کہ جنگل میں گناہ نہیں ہوتے، بستیوں میں تو گناہ ہوتے ہیں، ان کی فضا مکدر ہوتی ہے، جیسے ڈیزل وغیرہ سے ظاہری فضا مکدر ہوتی ہے، ویسے ہی باطنی فضا گناہوں سے مکدر ہوتی ہے اور جنگل میں نہ ڈیزل ہوتا ہے نہ گناہ، ظاہری ہوا بھی صاف اور باطنی ہوا بھی صاف، تو چوں کہ جنگلوں میں گناہ نہیں ہوتے اس لیے صوفیاء صحت کے لیے وہاں ٹہلنے کا معمول رکھتے ہیں۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ صبح کی ہوا لاکھ روپے کی دوا ۔
ایک بڑ ےمفتی صاحب بہت بیمار ہوگئے، انہیں چکر آتے تھے تو انہوں نے ٹہلنا شروع کردیا، اب کہتے ہیں کہ میں اٹھارہ سال کا معلوم ہورہا ہوں حالاں کہ ہیں ستر سال کے، تو ورزش یعنی ٹہلنا ان کے لیے بہت مفید ہے اور ٹہلنے کا وقت بھی وہی ہے کہ نہ پیٹ بھرا ہو اور نہ بھوک لگی ہو، درمیانہ وقت ہو۔