Deobandi Books

عاشقان حق کی خصوصیات

ہم نوٹ :

9 - 34
تھے کہ میں پریشان ہو گیا کہ کس کو بیان کروں اور کس کو بیان نہ کروں۔ حاجی صاحب کے فیض سے مجھ پر علوم کی بارش ہورہی تھی۔ اس لیے وارداتِ علوم کے انتخاب میں مجھ پر حال طاری ہو گیا کہ یہ علوم ہم پہلے بھی پڑھتے آئے تھے لیکن جب حضرت حاجی صاحب سے تعلق ہو ا تو نئے نئے علوم وار د ہو نے لگے۔ یہ سب شیخ کی جوتیوں کا صدقہ ہے اس لیے میری زبان سے نکلا ’’ہا ئے امدا د اﷲ ‘‘۔
ایک مرتبہ حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد سے باہر نکلے تو کانپور شہر کا ایک بہت بڑا بیرسٹر ( وکیل ) جو لندن سے وکالت کی ڈگریاں لے کر آ یا تھا حضرت تھانو ی سے مِلا، دیکھیے! ایک تو وکیل ہو تا ہے جو ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر لیتا ہے اور ایک بیرسٹر ہوتا ہے جو باہر کی ڈگریاں بھی لاتا ہے۔ وہ بیرسٹر فارسی بھی جانتا تھا اس لیے کہ پہلے زمانے میں اسکولوں اور کالجوں میں فا رسی لازم تھی، علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی فارسی لازم تھی۔ وہاں کے طلبہ نے مجھے فارسی اپنے نصاب میں دکھائی تھی۔ بہر حال اس بیرسٹر نے حضرت مولانا سے فا رسی میں پو چھا  ؎
تو   مکمل   از   کمالِ  کیستی
تو   مجمل   از   جمالِ  کیستی
اے مولانا اشرف علی ! تو کس کے کمال سے مکمل ہوا ؟ اور عشقِ الٰہیہ کا جمال تجھے کہاں سے حاصل ہوا ؟ حضرت وا لا نے بھی اس بیرسٹر کو فا رسی میں جواب دیا   ؎
من  مکمل  از  کمالِ   حاجیم
من  مجمل  از  جمالِ   حاجیم
 میں اپنے حاجی کے کمال سے مکمل ہوں اور میں اپنے حاجی کے جمال سے مجمل  ہوں۔اس کے بعد اس بیرسٹر نے کہا کہ کاش ! آپ بیرسٹر ہو تے تو عدالت کو ہلا دیتے کیوں کہ آپ نے صغریٰ اور کبریٰ ملا کر جس طرح اپنا مضمون ثابت کیا ہے اس پر ہم حیران ہیں کیوں کہ یہ بحث و مباحثہ ہماری عدالت کی چیز ہے۔بعدمیں حضرت والا نے فرمایا کہ اس بے چارے کی پہنچ یہیں تک تھی۔ اس کو کیا معلوم کہ علمِ دین کے سامنے بیرسٹری کی کیا حقیقت ہے۔
Flag Counter