نے کہا کہ اب میں تمہارا شوہر ہوں اور تم میری بیوی ہو، اگر اب بچپن والی چپت بازی کی تو سوچ لو کہ پھر تمہار ا ٹھکانہ کیا ہو گا۔
وقت اور حالات کے ساتھ احکامات بدل جاتے ہیں، جیسے چھوٹے بچے بچپن میں آپس میں کھیلتے ہیں، مار پیٹ کرتے ہیں لیکن جب بڑے ہوکر ان کی آپس میں شادی ہوتی ہے تو بیوی شوہر سے ادب سے پیش آتی ہے اور بچپن کے لڑائی جھگڑے سب ختم ہوجاتے ہیں۔ بعض عورتیں کہتی ہیں کہ ہمارے گھر میں جو نو کر ہے وہ بچپن سے ہمار ے پاس ہے ہمیں اس سے پر د ہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس نو کر کو تو بچپن سے میں نے پالا ہے۔ میں نے کہا کہ جب بچہ چھو ٹا ہوتا ہے تو ماں اس کو ننگا کر کے سر سوں کے تیل سے اس کی مالش کر تی ہے تا کہ اس کے اعضا مضبوط ہو جائیں لیکن وہی بچہ جب بڑا ہو جاتا ہے تو کیا پھر بھی ماں اس کو ننگا کرکے مالش کر ے گی؟ اور کیا بالغ ہو نے کے بعد اس کے ناف کے نیچے کے اعضا ماں دیکھ سکتی ہے؟ اور دلیل میں کہہ سکتی ہے کہ ہم سے کیا چھپا نا، ہم نے تو اس کو ہگایا، متا یا ہے۔ یہاں یہ دلیل نہیں چلے گی کیوں کہ اصول یہ ہے کہ یَتَبَدَّلُ الْاَحْکَامُ بِتَبَدُّلِ الزَّمَانِ وَالْمَکَانِ یعنی زمان اور مکان بدلنے سے احکام بدل جا تے ہیں۔
جعلی پیروں کا جاہلانہ فلسفہ
اسی طرح جعلی پیروں نے عورتوں کو یہ سمجھا رکھا ہے کہ پیروں سے پردہ مت کرو کیوں کہ جب ہم تم کو دیکھیں گے نہیں، پہچانیں گے نہیں تو قیامت کے دن تمہا ری بخشش کیسے کرائیں گے؟ یہ ان کی نالائقی، کمینہ پن ہے اور نفس کی بدمعاشی کی دلیل ہے۔ بہاول نگر میں مجھے بتا یا گیا کہ یہاں عورتیں پیر سے پر دہ نہیں کر تیں اور پیر اگر قنات، شامیانہ وغیرہ لگاتا ہے تو عور تیں قنات کو ہٹادیتی ہیں کیوں کہ طاقت ور ہو تی ہیں۔ وہاں طاقت میں مر د و زن برابر ہیں۔وہ قنا ت کو ہٹا کر پیر کے لیے یہ جملہ کہتی ہیں ’’پیر نوں چنگی طرح ویکھن دو ‘‘ لیکن یہ بالکل حرام ہے۔ پیر سے پردہ نہ کرنا جہالت ہے۔ پیر نامحرم ہے، اس سے پردہ کرنا واجب ہے۔ پیر سے عقیدت و محبت اﷲ کے احکام کے تابع ہونی چاہیے، اﷲ کی محبت سب سے زیادہ ہو نی چاہیے۔