وقت اور حالات کے ساتھ احکام بدل جاتے ہیں
میں اپنے شیخِ اوّل حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں پھولپور میں رہتا تھا۔ میرے موجودہ شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم بھی حضرت پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت تھے اور حضرت کی خدمت میں حاضری کے لیے اکثر پھولپور آتے رہتے تھے۔میں اُس زمانے میں حضرت والا مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم سے اتنا بے تکلف تھاکہ ان کے ساتھ لاٹھی سے کھیلتا تھا۔ لاٹھی کھیلنے میں لاٹھی ماری بھی جاتی ہے، لاٹھی کو روکا بھی جاتا ہے اور اپنا دفاع بھی کیا جا تا ہے۔ حضرت بھی مجھ سے زیادہ تکلف نہیں فرماتے تھے۔ حضرت کی مجھ سے اتنی بےتکلفی تھی کہ ایک مرتبہ حضرت پھولپور حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ سے ملنے تشریف لائے تو وہاں سے فو را ً ہی میرے پاس کوٹلہ پہنچ گئے۔ میں اپنے گاؤں کوٹلہ میں مطب کیا کرتا تھا۔ میں نے کہا حضرت! آپ یہاں پھولپور سے اٹھا رہ بیس میل دور کیسے تشریف لائے؟ جواب میں فرمایا کہ میں آیا تو پھولپور کے لیے تھا مگر حضرت سورہے ہیں اور تمہارے بغیر دل گھبرا رہا تھا اس لیے میں تمہار ے گاؤں ’’کوٹلہ ‘‘ کے لیے اپنا پو ٹلہ لے کر آ یا ہوں۔ حضرت نے اپنا جھولہ دکھایا جس میں لنگی وغیرہ ضروری سامان تھا پھر فرمایا کہ اب تم میرے ساتھ چلو، تمہارے بغیر مزہ نہیں آ رہا ہے۔ میں فوراً تیار ہو گیا حالا ں کہ وہ وقت ہمارے مطب کا تھا۔ مگر ہم نے مطب کا خیال بھی نہیں کیا۔ اس کی برکت سے میں آج زیرِ مطب نہیں ہوں۔ میں تیار ہو کر فو را ً ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا اور ہم پھولپور پہنچ گئے۔
بہر حال حضرت سے میری بے تکلفی تھی کیوں کہ حضرت اس وقت میرے پاس ہی زیادہ رہتے تھے ۔ انہوں نے شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو شیخ بنا یا تھا ،لیکن جب میں حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم سے مرید ہوا تو میں نے اپنے آپ سے خطاب کر کے کہا دیکھو بھئی اختر! ہوشیار ہو جاؤ، اب وہ بے تکلفی کی داستان بھول جاؤ۔ واقعہ لکھاہے کہ ایک لڑکا اپنی خا لہ زاد بہن سے مار پٹائی کر تا تھا۔ دونوں ہم عمر تھے کبھی اس نے چپت ما ر دیا کبھی اس نے مار دیا۔ جب بالغ ہو نے کے بعد دونوں کی شادی ہو گئی تو خالہ زاد بھائی