لہٰذا شیخ سے کہو کہ ہم نو گر فتاروں میں سے ہیں،ہم راہِ محبت کے سفر میں ابھی نئے ہیں لہٰذا ہمیں بتا ئیے کہ کس طرح نظر بچانی چاہیے اور کس طرح اﷲ تعالیٰ سے فریاد کرنی چاہیے۔ شیخ سے استقا مت سیکھو تاکہ کسی قد و قامت کو دیکھ کر تم پر قیامت برپا نہ ہو جائے۔
خیر تو میں عرض کررہا تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللہِ یعنی جوشخص اﷲ تعالیٰ کی طرف بلا رہا ہے اس سے بہتر کسی کاکلام نہیں ہے۔ ساری کائنات کے اقوال میں سب سے بہتر اس کا قول ہے جو اﷲ کے بندوں کو اﷲ کی طرف بلا رہا ہے، اس قول کے احسن ہو نے کی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ احسن ہیں، ان سے بڑا کوئی حسین نہیں ہے، بلکہ وہ حسین ساز ہیں، وہ حسینوں کے خالق ہیں لہٰذا جو شخص بندوں کو اﷲ تعالیٰ کی طرف بلا رہا ہے وہ دنیا و آخر ت دونوں سنوا ر رہا ہے۔ وہ دنیا بھی بنا رہا ہے آخر ت بھی بنا رہا ہے۔
اﷲ والے تاجر اور دنیا دار تاجر کا فرق
کوئی شخص تجا رت میں کتنا ہی کا میا ب ہو جائے وہ اﷲ کے تعلق کے بغیر چین اور سکون سے نہ رہے گا۔ اگر تاجر بھی اﷲ والا ہو جائے تو تجارت کے ساتھ اسے ولایت بھی حاصل ہوجائے گی، وہ ولی اﷲ بھی بن جائے گا اور نسبت مع اﷲ کی بر کت سے اس کے قلب کو سکون بھی رہے گا۔ کا رو بار بھی رہے گا، کار بھی رہے گی اور دل میں یار بھی رہے گا۔ وہ کار میں بیٹھ کر بھی اﷲ کا شکر ادا کرے گا کہ یا اﷲ! آپ کا شکر ہے کہ آپ نے کار دے دی ورنہ ہم تو گدھا گاڑی کے قابل بھی نہیں ہیں۔ میرا ایک شعر ہے ؎
آپ چاہیں ہمیں یہ کرم آپ کا
ورنہ ہم چاہنے کے تو قابل نہیں
اﷲ والے تا جر کا حال یہ ہوتا ہے کہ نوٹ کی گڈیاں بھی گن رہا ہوتا ہے اور ساتھ میں اﷲ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کر تا رہتا ہے،اور دنیا دار تاجر کہتا ہے کہ جو مال مجھے دیا گیا ہے وہ اپنے علم کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ وہ قارون کی طرح متکبرانہ بات کر تا ہے۔ اﷲ والوں کی گفتگوئے مال، گفتگوئے جمال سب متشکرانہ ہوتی ہے۔