ایک ہی قطرہ تو سیپ میں موتی بنتا ہے، سارا سمندر کا سمندر بادل بن کر برستا ہے لیکن سارے بادل کا پانی سیپ کے پیٹ میں جا کر موتی نہیں بنتا، صرف ایک قطرہ ہی موتی بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اخترکی کوئی آہ آپ کے دلوں میں اور ہمارے دلوں میں اپنی رحمت سے اُتار دے اور ہم سب کو صاحبِ آہ بنادے، صاحبِ نسبت بنادے تو وہ ایک آہ ہی کافی ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اب مولانا شاہ محمد احمد صاحب کا وہ شعر سن لیجیے، اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، فرماتے ہیں کہ دیکھو! اپنی بُری خواہشوں کی فانی اور گندی بہاروں کو ختم کردو، کیسے؟
لیکن ان کا شعر سننے سے پہلے مولانا فضلِ رحمٰن گنج مرادآبادی رحمۃ اﷲ علیہ کے یہ اشعار سنیے جن میں حضرت فرماتے ہیں…آہ! جب کسی اﷲ والے کو کوئی اللہ والا یا کوئی مناسبت والا راز داں ملتا ہے تب ان کا درد اور ان کی خوشبو ظاہر ہوتی ہے، ناآشناؤں سے کہاں ظاہر ہوتی ہے ؎
شاعری مدِّنظر ہم کو نہیں
وارداتِ دل لکھا کرتے ہیں ہم
ایک بلبل ہے ہماری راز داں
ہر کسی سے کب کھلا کرتے ہیں ہم
ان کے آنے کا لگا رہتا ہے دھیان
بیٹھے بٹھلائے اُٹھا کرتے ہیں ہم
اب مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی کا شعر سنیے ؎
سنیں یہ بات میری گوشِ دل سے جو میں کہتا ہوں
گوشِ دل کے معنیٰ کیا ہیں؟ دل کے کان سے سنیے۔ اس کان سے تو کافر بھی سنتا ہے، آپ بحیثیتِ مؤمن دل کے کان سے سنیے، ایک اللہ والے کا کلام ہے ؎
سنیں یہ بات میری گوشِ دل سے جو میں کہتا ہوں
میں ان پر مر مٹا تب گلشنِ دل میں بہار آئی