جائے، ایں خیال است و محال است و جنوں۔ اللہ غیور ہے، غیرت والا ہے، اللہ تعالیٰ کو غیرت آتی ہے کہ جس کے دل میں مردے پڑے ہوئے ہوں، جس کو مردوں سے محبت ہو، وہ اس کے دل میں اپنی محبت کا چاند طلوع نہیں کرتے۔ اگر اﷲ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑنا ہے تو ان مرنے والی لاشوں سے بچنا پڑے گا۔ اور جو آپ کا نفس اسکیم بنائے ہوئے ہے کہ مرنے والی لاشوں سے، عشقِ مجازی سے خوب بہار رہے گی تو اس حماقت سے توبہ کرلیں، دنیا ہی میں دیکھ لیں کہ اگر کسی ہال میں کفنایا ہوا ایک مردہ پڑا ہوا ہو اور اس ہال میں شاندار دعوت ہو اور سب کھانے والے دیکھ رہے ہیں کہ کفنایا ہوا مردہ لیٹا ہوا ہے تو بتاؤ کھانے میں مزہ آئے گا؟ کیوں؟ اس مردے کو دیکھ کر طبیعت مکدر ہوجائے گی۔ تو جن کے دل میں مردوں کا عشق گھسا ہوا ہے ان کے دل میں بہار کیسےآسکتی ہے؟ ان کے دل میں تو کدورت ہے، ان کا دل ہمیشہ مکدر رہے گا،وہ بہار کو خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے۔مولانا رومی فرماتے ہیں جب تک نفس کی خواہشیں تازہ ہیں تمہارا ایمان تازہ نہیں ہوسکتا ؎
تا ہویٰ تازہ ست ایماں تازہ نیست
کیں ہویٰ جز قفلِ او دروازہ نیست
نفس کی خواہشات اللہ کے دربار کے لیے تالے ہیں جو دروازے کو مقفل کیے ہوئے ہیں۔
دِلوں کے قفل کی کنجی اﷲ کا ذکر ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے ہیں:
اَللّٰہُمَّ افْتَحْ اَقْفَالَ قُلُوْبِنَا بِذِکْرِکَ8 ؎
اے اللہ! میرے دل کے تالوں کو اپنے ذکر کی کنجی سے کھول دیجیے۔
معلوم ہوا کہ اللہ کی یاد دل پر لگے ہوئے تالوں کو کھولتی ہے، لہٰذا ذکر میں کبھی ناغہ نہ کریں۔ شیخ کی صحبت، اللہ والوں کی صحبت اور ذکر اللہ میں ناغہ نہ کریں اور ایک کام اور کرلیں یعنی حسینوں سے دور رہیں تو ذکر اللہ، صحبتِ اہل اللہ اور اسبابِ گناہ سے دوری اللہ کی حضور ی کے لیے کافی ہے۔
_____________________________________________
8؎ کنزالعمال: 699/7 (20990)،فصل رابع فی الاذان والترغیب فیہ... الخ ،مؤسسۃالرسالۃ