ایں زباں ہا جملہ حیراں می شود
تو دنیا کی تمام زبانیں حیران ہوجاتی ہیں۔ آہ! میں اپنے اللہ کے نام کی مٹھاس کو، اللہ تعالیٰ کے نام کی لذت کو کس لفظ سے ادا کروں، الفاظ نہیں ملتے۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کی زبانِ ولایت اعلان کررہی ہے ؎
ایں زباں ہا جملہ حیراں می شود
کیا مرنڈا اور انڈا، بریانی اور کباب میں پڑے ہو ؎
خوردن ریحان و گل آغاز کن
معدہ را از خوردن جو باز کن
اللہ کے ذکر کی غذا شروع کیجیے، پھر آپ دیکھیے کہ خوشی کا خالق آپ کے دل کو بے مثال خوشی عطا کرے گا، ایسی خوشی عطا کرے گا جس کی مثال نہیں ہوگی، کیوں کہ اللہ بھی بے مثال ہے، اس کا کوئی کفو نہیں ہے، اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کو جو خوشی عطا کرتا ہے اس خوشی کا کوئی ہمسر نہیں ہے، اس خوشی کی کوئی مثال نہیں ہے نہ دنیا میں نہ آخرت میں، سوائے دیدارِ الٰہی کے۔ جنت کی ساری مخلوق سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے نام میں لذت ہے۔ صرف ایک چیز جنت کی مستثنیٰ ہے اور وہ ہے دیدارِ الٰہی۔
اللہ کا دیدار! اللہ کے دیدار میں اتنا مزہ آئے گا کہ جنت کی کسی حور کا تصور، اس کا خیال بھی نہیں آئے گا۔ ارے میاں! کہاں خالق اور کہاں مخلوق ؎
چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک
اس موضوع پر ایک شعر ہے ؎
شاہوں کے سروں میں تاجِ گراں سے درد سا اکثر رہتا ہے
اور اہلِ صفا کے سینوں میں اک نور کا دریا بہتا ہے
اﷲ کی نا فرمانیوں والے اعمال سے بچنا فرض ہے
لیکن یہ توفیق ایک جذبے سے ملے گی، اللہ ایک ہی جذبے سے ملے گا کہ ہم دل