گی پھر ہم شیر ہوجائیں گے۔ اللہ کے راستے میں جتنے لومڑی ہیں وہ شیرِِ طریقِ حق ہوجائیں گے۔
اب وہ شعر سنیے کہ کس جذبۂ دردِ دل سے مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے اس مضمون کو آراستہ کیا ہے کہ اے دنیا والو! ارادہ کرلو کہ ہم گناہوں کی خبیث بہاروں پر، نافرمانی کی خبیث لذتوں پر لعنت بھیجتے ہیں چاہے کچھ بھی ہوجائے، چاہے موت آجائے ؎
کوئی مرتا کوئی جیتا ہی رہا
عشق اپنا کام کرتا ہی رہا
تقاضائے گناہ کو دبانے سے خوشبوئے محبتِ الٰہیہ پیدا ہو تی ہے
جس کا دل خدا کی یاد میں مست ہوجاتا ہے اس کی آنکھیں بھی مست ہوجاتی ہیں۔ جب شمس الدین تبریزی نے کہا کہ اے جلال الدین رومی! تم مجھ سے اتنا نیک گمان کیوں رکھتے ہو؟ میں تو ایسا آدمی نہیں ہوں جو تمہاری تربیت کے قابل ہو۔ تو مولانا نے کہا کہ اے میرے پیرو مرشد ؎
بوئے مے را گر کسے مکنوں کند
اگر شراب پی کر کوئی اپنے منہ کی بدبو چھپالے ؎
چشمِ مست خویشتن را چوں کند
لیکن وہ ظالم اپنی مست آنکھوں کو کیسے چھپائے گا؟ یہ محض ایک مثال ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ شراب پینا حلال ہوگیا۔
مولانا رومی نے مثال سے سمجھایا ہے کہ جس طرح دنیا کی شراب پینے والے کی آنکھوں کا خمار چھپ نہیں سکتا چاہے وہ کتنا ہی چھپائے، چاہے قسم اُٹھالے کہ نہیں میں نے نہیں پی، لیکن اس کی آنکھیں بتادیں گی کہ یہ کہاں سے مست ہوئیں ہیں۔
ایسے ہی جو اللہ والا راتوں کو اللہ تعالیٰ کے نامِ پاک کی یاد کی برکت سے اللہ والی محبت کی پاک شراب پی کر آئے اور مجلس میں بیٹھے تو اس کی آنکھیں اﷲ کی محبت چھپاسکتی ہیں؟ اللہ کی محبت کو کوئی چیز نہیں چھپا سکتی۔ سن لیجیے! اصغر گونڈوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎