اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا بنایا ہے کہ جس سے دوسروں کو سبق مل جائے، اور ان کو مردہ لاشوں کی بدبو بھی نہیں آتی۔ اسی طرح آج ایسے نوجوان ہیں جن کو سینما، وی سی آر، ٹیڈیوں کے چکر سے منع کیا جاتا ہے تو مولویوں کو کہتے ہیں ارے! یہ سب ایسے ہی ہیں، جیسے کرگس کو لاکھ سمجھاؤ مگر وہ مردہ خوری سے باز نہیں آتا۔
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جلال الدین رومی بھی کرگس تھا، میں بھی حسینوں کو تلاش کرنے کا ذوقِ عاشقانہ رکھتا تھا اگرچہ تلاش تو نہیں کرتا تھا مگر عاشقانہ ذوق رکھتا تھا، لیکن فرماتے ہیں کہ اپنے پیرو مرشد شمس الدین تبریزی کی صحبت کی برکت سے ؎
بازِ سلطانم گشم نیک و پیم
فارغ از مردارم و کرگس نیم
اب میں بازِ شاہی ہوچکا ہوں یعنی اللہ پاک کا مقرب ہوچکا ہوں۔ اب میں نیک، پارسا اور بازِسلطانی بن چکا ہوں اور مردہ کھانے سے فارغ ہوچکا ہوں، اے دنیاوالو! اب جلال الدین کرگس نہیں ہے، گدھ نہیں ہے جو مُردوں پر مرے۔
قیامت کے دن ہماری قیمت کیسے لگے گی؟
جو شخص مُردوں پر مرنے سے ابھی باز نہیں آرہا، اس کی روح کے پَر ابھی کرگسی پر ہیں، ابھی بازِ شاہی کے پَر سے وہ محروم ہے۔ لہٰذا جلدی کیجیے! اگر اسی حالت میں موت آگئی اور ان ہی مُردوں سے دل لگانے کی عادت پڑی رہی تو قیامت کے دن ہماری مٹی کی کیا قیمت لگے گی؟ مٹی مثبت مٹی حاصل مٹی۔ مٹی کا مکان، مٹی کی عورتیں، مٹی کے کھانے، سبھی ان ہی چکروں میں ہیں جن کی کوئی قیمت نہیں۔ اس لیے مجھے اپنا شعر یاد آرہا ہے ؎
کسی خاکی پہ مت کر خاک اپنی زندگانی کو
جوانی کر فدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو
اپنی زندگی کو قیمتی بنائیں، کب تک پریشان رہیں گے۔ میں آپ کو دعوتِ عیشِ دوجہاں دے رہا ہوں۔ میں آپ کو گناہ چھوڑنے کے غم میں مبتلا نہیں کررہا ہوں۔ واللہ! مسجد میں قسم کھاکر