Deobandi Books

نگاہ نبوت میں محبت کا مقام

ہم نوٹ :

25 - 42
کارفرما  تو  لطف  ہے   اُن   کا
ہم  غلاموں  کا  نام  ہوتا  ہے
 اور بندوں کی محبت سے کیا مراد ہے؟ کہ اﷲ کی طرف وہ طبعاً ، عقلاً اور قلباً مائل رہیں اور اﷲ کے احکام کو بجا لائیں اور ان کی منع کی ہوئی باتوں سے اجتناب کریں،یعنی امتثالِ اوامر اور اجتنابِ نواہی اہلِ محبت کی علامات سے ہے۔ 
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی نظر میں محبت کا مقام 
آخر میں علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ جو طاعات ہیں وہ محبت کے لیے موافقات میں سے ہیں،یعنی محبت سبب ہے اور اطاعت کرنا مسبب ہے اور گناہ سے بچنا یہ محبت کا اثر ہے، لیکن کہتے ہیں کہ اگر اعمال میں کمزوری ہو تو یہ محبت کے مغایر نہیں،یعنی کہ اگر کسی شخص میں عملی طور پر کوئی کمزوری ہو تو اس کو یہ نہ کہو کہ یہ اﷲ کا عاشق نہیں ہے۔ آگے اس کی دلیل میں ایک حدیث پیش کرتے ہیںاَلَا تَرٰی اِلَی الْاَعْرَابِیِّ کیا تم اس بدوی کو نہیں دیکھتے جس نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ قیامت کب آئے گی؟فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَا اَعْدَدْتَّ لَہَا تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہوئی ہے؟ اس نے کہا:مَا اَعْدَدْتُّ لَہَا کَبِیْرَ عَمَلٍ میرے پاس کوئی بڑے بڑے عمل نہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فرض واجب سنتِ مؤکدہ ضروری عمل کرلیتا ہوں، مگر رات رات بھر جاگنا بڑی بڑی محنتیں کرنا یہ مجھ سے نہیں ہوتا، میرے پاس کبیر اعمال تو نہیں ہیں،لٰکِنْ حُبَّ اللہِ تَعَالٰی وَ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لیکن میرے پاس اﷲ اور رسول کی محبت بہت ہی عظیم ہے۔ کبیر کا استثنا کبیر سے ہوگا یعنی میرے پاس کبیر عمل نہیں ہے، لیکن میرے پاس محبت کبیر ہے فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ: اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ18؎ آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے یعنی جنت میں اسی کے ساتھ رہے گا جس سے وہ اﷲ کے لیے محبت کرتا ہے۔ اب علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ دیکھیے۔ اگر اور 
_____________________________________________
18؎   جامع الترمذی:64/2، باب المرء مع من احب، ایج ایم سعید
Flag Counter