لڑکی کو چھیڑ رہا تھا یا فلاں گناہ کررہا تھا، اس کو توبہ کی توفیق دے کر جب اپنا ولی بناتے ہیں، تو اس کی تمام رسوائیوں کی اپنی شانِ کرم کے شایانِ شان تلافی فرمادیتے ہیں اور اس سے کوئی کام ایسا لے لیتے ہیں جس سے اس کی رسوائیوں کی تلافی ہوجاتی ہے، جیسے ابّا اپنے بیٹے کی ذلت کو گوارا نہیں کرتا، اس سے کوئی کام ایسا لے لے گا کہ جس سے وہ سب چرچے ختم ہوجائیں گے۔ ایسے لوگوں سے روئے زمین پر اکثر کوئی کرامت بھی صادر ہوجاتی ہے، تاکہ اس کی ذلت کے سیاہ بادلوں پر عزت کا آفتاب روشن ہوجائے۔
اس واقعے کو بیان کیا تفسیر معالم التنزیل کے مصنف علامہ بغوی نے جلد نمبر چار صفحہ ۸۳ پر، اور علامہ محمود نسفی نے تفسیر خازن میں جلد نمبر چار صفحہ ۵۹ پر، اور محدثِ عظیم ملّا علی قاری نے مرقاۃ جلد ۵ صفحہ ۱۴۹ پر۔بس اتنا حوالہ کافی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے جس وقت میں نے اس کو بیان کیا تو نیپال کے سفیر جو میرے وعظ میں ہر جمعہ کو آتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اس شخص کا دماغ ہے یا کمپیوٹر ہے ؟ میں نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ الحمدﷲ!یہ میرےبزرگوں کی کرامت ہے۔
بندوں سے اﷲ کی محبت کے معنیٰ
ایک چیز اور عرض کرتا ہوں، اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ دین سے مرتد ہوتے ہیں ہم ان کے مقابلے کے لیے عاشقوں کی ایک قوم پیدا فرمائیں گے یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ جن سے اﷲ تعالیٰ محبت کریں گے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کریں گے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ اشکال قائم فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی محبت کو مقدم کیوں فرمایا اور بندوں کی محبت کو بعد میں کیوں بیان فرمایا؟ پھر اس کا جواب دیتے ہیں کہ قَدَّمَ اللہُ تَعَالٰی مَحَبَّتَہٗ عَلٰی مَحَبَّۃِ عِبَادِہٖ لِیَعْلَمُوْا اَنَّہُمْ یُحِبُّوْنَ رَبَّہُمْ بِفَیْضَانِ مَحَبَّۃِ رَبِّہِمْ اﷲ تعالیٰ نے اپنی محبت کو اس لیے مقدم کیا تاکہ جس کو اﷲسے محبت نصیب ہو اس میں ناز نہ پیدا ہو اور اس کو یقین رہے کہ ہم جو اﷲ تعالیٰ سے محبت کر رہے ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت کررہے ہیں یہ اصل میں اﷲ کی محبت کا ہم پر فیضان ہورہا ہے؎