محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی
جسے خود یار نے چاہا اُسی کو یادِ یار آئی
اﷲ جس کو چاہتا ہے وہی اﷲ کو یاد کرتا ہے، اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنی محبت کو مقدم کیا تاکہ بواسطۂ صحابہ سب کو معلوم ہوجائے کہ ہم لوگ جو اپنے رب سے محبت کرتے ہیں یہ حق تعالیٰ کی محبت کا فیضان ہے۔ ہم جو ان کو چاہ رہے ہیں یہ ہمارا کمال نہیں ہے، دراصل وہی ہم کو چاہ رہے ہیں؎
وہی چاہتے ہیں میں کیا چاہتا ہوں
بتائیے! کیا عمدہ تفسیر ہے۔ آہ! یہ اﷲ کے کلام کی تفسیر ہمیں اﷲ سے قریب کر رہی ہے۔ اور اﷲ کی اپنے بندوں کے ساتھ محبت سے کیا مراد ہے؟ مراد وہ محبت ہے جو تَلِیْقُ بِشَانِہٖ تَعَالٰی جو اﷲ کی شان کے لائق ہے یعنی اﷲ تعالیٰ ارادہ فرمالیتے ہیں کہ مجھے فلاں کو اپنا ولی بنانا ہے، بس اﷲ کی محبت سے یہ مراد ہے اِنَّ اللہَ تَعَالٰی اَرَادَ اَنْ یَّجْعَلَہٗ مُرَادًا وَّ مَحْبُوْبًا لِّنَفْسِہٖ17؎ یعنی اﷲ تعالیٰ اس کو اپنی ذات کے لیے محبوب بنانے کا ارادہ کرلیتے ہیں۔ اور اﷲ کے ارادہ اور مراد میں تخلف محال ہے، جس کو اﷲ تعالیٰ اپنا ولی بنانے کا ارادہ کرلے ناممکن ہے کہ ساری دنیا اس کو گمراہ کرسکے، بلکہ خود اس کا نفس و شیطان بھی اس کو گمراہ نہیں کرسکتا، پھر اس کے لیے اسبابِ ہدایت خود اﷲ تعالیٰ پیدا فرماتے ہیں؎
حسن کا انتظام ہوتا ہے
عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے
بندوں پر اﷲ کی محبت کے آثار
حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے سارا انتظام اﷲ میاں نے کیا، ورنہ وہ کہاں سے ایمان پاتے؟ ہماری محبت کا ایک نام ہے، سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے؎
_____________________________________________
17؎ روح المعانی:162/6،المآئدۃ(54) ، داراحیاءالتراث، بیروت