دونوں کہتے ہیں، گمراہی کے اندھیروں میں ان کے الفاظ یہ ہوتے ہیں کہ مولانا! پردہ تو دل کا ہے، دل صاف نظر پاک یا دل پاک نظر صاف، تو معلوم یہ ہوا کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ جن کا ایمان اس مقام پر تھا کہ فرماتے ہیں کہ جب میں قیامت کے دن جنت اور دوزخ کو دیکھوں گا تو مَااَزْدَدْتُّ یَقِیْنًا میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا، اتنا یقین مجھ کو سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت کے صدقے میں دنیا ہی میں حاصل ہے۔تو جن کا ایمان اس درجے کا ہے کہ گویا وہ جنت اور دوزخ کو دیکھ رہے ہیں ان کے لیے تو نظر کی حفاظت کا حکم ہے اور آج اس زمانے میں کیا ہم لوگوں کا دل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دل سے زیادہ پاک ہے اور ہماری نظر ان کی نظر سے زیادہ صاف ہے؟ یا دل صاف نظر پاک یا دل پاک نظر صاف، بتائیےیہ کیا ہے؟بےوقوفی نادانی کی بات ہے۔اسی لیے آج کل اولیاء اﷲ کم پیدا ہورہے ہیں اور کمی کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر تقویٰ کی کمی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی دوستی کی بنیاد تقویٰ پر رکھی ہے کہ گناہ سے بچو:
اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ5 ؎
اﷲ کے جو دوست ہیں ان کو میدانِ محشر کی ہولناکیوں کا کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ دنیا سے جدا ہونے کا ان کو کوئی غم ہوگا، کیوں کہ اعلیٰ چیز کی طرف جارہے ہیں۔
اولیاء اﷲکی ولایت کا میٹیریل
لیکن اولیاء اﷲکی ولایت کا میٹیریل اور اجزائے ترکیب یہ دو ہیں: ۱)ایمان ۲) تقویٰ جیسا کہ آگےآیت میں ہے۔اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ماضی ہے یعنی ایک دفعہ ایمان لانا کافی ہے وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ یہ استمرار ہے،جب مضارع پر کَانَ داخل ہوتا ہے تو استمراری بن جاتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ ایمان لانے کے بعد ولی اﷲ بننے کے لیے ساری زندگی تقویٰ کا غم اور گناہ چھوڑنے کا غم اور نافرمانی سے بچنے کے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ پہلے پاپڑ بیلنے کو ملیں گے پھر پاپڑ کھانے کو ملیں گے، لیکن ہم لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ پاپڑ بیلنے نہ پڑیں عورتیں بیل کر پیش کردیں،یعنی مجاہدات نہ کرنے پڑیں اور ثمرات مل جائیں،لیکن؎
ایں خیال است و محال است و جنوں
_____________________________________________
5؎ یونس:62