شیخ سے استفادہ بیان پرموقوف نہیں
دوسری بات یہ کہ بعض لوگ اہل اﷲ یا اہل اﷲ کے غلاموں کی صحبت کے لیے بیان کو ضروری سمجھتے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہ بیان ہوگا یا نہیں؟ آہ نکل جاتی ہے کہ کیا ملاقات اور صحبت کے لیے بیان لازم ہے؟ کہیں صحبت کے معنیٰ دکھلادو کہ صحبت کے لیے بیان لازم ہے۔ اگر ایک شخص حالتِ ایمان میں نبی کو دیکھ لے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کچھ نہ بولیں تو صحابی ہوا یا نہیں ؟ تو صحبت کے لیے بولنا ضروری نہیں، خاموشی سے بھی فائدہ ہوتا ہے، لیکن یہ پوچھنا کہ آج بیان ہوگا یا نہیں؟معلوم ہوا لذتِ دیدار و لذتِ ملاقات سے یہ ظالم ناآشنا ہے۔ بولو بھائی! کیا خالی ملاقات نعمت نہیں؟ آپ بتلائیے!یہ عاشقِ بیان ہے یا عاشقِ تقریر ہے؟یہ ظالم عاشق مقرر ہوتا تو یہ نہ پوچھتا، بلکہ کہتا کہ بھئی ملاقات ہوجائے گی یا نہیں؟بس ملاقات ہوجائے یہی کافی ہے۔
شیخ سے والہانہ تعلق کی مثال
میں اپنے شیخ کے ساتھ رہتا تھا۔ حضرت آٹھ آٹھ گھنٹے عبادت کرتے تھے، تین بجے رات کو اٹھتے، گیارہ بجے دن تک عبادت میں مشغول رہتے، دس دس پارے تلاوت کرتے تھے، مناجاتِ مقبول زبانی یادتھی اور اس کی ساتوں منزل روزانہ پڑھتے تھے، قصیدہ بردہ زبانی یاد تھی، بارہ تسبیح اور تہجد کی ہر دو رکعت کے بعد سجدہ میں روتے تھے، یہ سب پندرہ سال تک میری آنکھوں کا دیکھا ہوا ہے، لیکن میں کبھی حضرت سے غائب نہیں ہوا، الحمدﷲ!کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حضرت فارغ ہوئے ہوں اور مجھے نہ پایا ہو، میں حضرت کی جوتیاں لیے ایک جگہ بیٹھا رہتا، ایسی جگہ بیٹھتا تھا کہ حضرت کی نظر مجھ پر نہ پڑے، تاکہ ان کو احساس نہ ہو کہ میرے رازِ خلوت سے کوئی واقف ہورہا ہے، تاکہ آزادی سے میرا شیخ اپنے اﷲ کو خوب یاد کرے، کیوں کہ دیکھنے سے عبادت مشکل ہوجاتی ہے،اس لیے کونے میں بیٹھتا تھا، جب حضرت اٹھتے اور مسجد سے باہر آتے تو حضرت کے پاؤں میں جوتا پہنا دیتا۔ کبھی حضرت بارہ بجے رات تک جلسہ میں جاگے، اس کے بعد تین گھنٹے سوئے پھر اٹھ گئے اور میں