حضرت کے پاؤں دباتا رہا، جوانی میں ایک گھنٹہ سونے کو ملا۔ ایک دن حضرت نے فرمایا کہ حکیم اخترمیرے ساتھ اس طرح رہتا ہے جیسے دودھ پیتا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے پھرتا ہے۔
ایک واقعہ یاد آیا۔ حضرت کی مسجد اور خانقاہ سے ذرا فاصلے پر ایک چھوٹا سا تالاب تھا، اس میں ہم لوگ کپڑے دھوتے تھے، میں حضرت کے کپڑے دھورہا تھا کہ حضرت نے آواز دی حکیم اختر! دل میں ایک علمِ عظیم وارد ہوا ہے جلدی نوٹ کرو۔ میں نے کہا حضرت! میں حاضر ہوا اور جلدی سے اٹھ کرآیا۔ فرمایا:اﷲ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتے ہیں وَھُوَالْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ اﷲ تعالیٰ بہت بخشنے والا ہے، بہت محبت کرنے والا ہے۔ لیکن غَفُوْرْ کو مقدم کیوں کیا؟ اپنے بندوں کو بتادیا کہ جانتے ہو تم کو ہم جلدی کیوں بخش دیتے ہیں؟ مارے محبت کے، غلبۂ محبت کی وجہ سے۔ جس کو حضرت نے پوربی زبان میں فرمایا: ہم تم کو جلدی بخش دیتے ہیں، جلدی معاف کردیتے ہیں مارے مَیَّا کے۔ ہندوستان میں مَیَّا کہتے ہیں محبت کو۔ مارے مَیَّا کے۔ آہ! کیا لفظ ہے، وجد آگیا۔ تو اس طریقے سے میں حضرت کے علوم نوٹ کرتا تھا، لیکن اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجھ کو بھی اﷲ تعالیٰ نے ایسے دوست احباب دیے جو ہروقت میرے ساتھ رہتے ہیں۔ دیکھو! میر صاحب رات دن ساتھ میں ہیں،یہ اسٹیل مل میں آفیسر تھے، پرچیز آفیسر جہاں بڑی بالائی آمدنی ہوتی ہے یعنی حرام کی آمدنی کا امکان ہوتا ہے، لیکن انہوں نے کبھی رشوت نہیں لی اور سفر میں حضر میں میرے ساتھ رہنے کے لیے نوکری بھی چھوڑدی۔
مجالسِ اہل اﷲ کی اہمیت
یہ مجلس جو میں نے آپ کے ساتھ اس وقت کی ہے، پوری امت کے اولیاء اﷲ کا اجماع ہے کہ ان مجالس سے ہی دین پھیلا ہے۔ یہ مجلس ان مجالس کی نقل ہے۔ اب حقیقت کہاں سے لاؤ گے؟ اب نقل ہی کو غنیمت سمجھو ورنہ وہ بھی کہاں ملے گی؟ اب اولیائے سابقین کہاں ملیں گے؟ جو موجود ہیں ان کو غنیمت سمجھ لو۔ میرے شیخ فرماتے تھے گندم اگر بہم نہ رسد بھس غنیمت است۔ گندم اگر نہ ملے تو بھوسی کی روٹی کھالو۔ لیکن شیخ اپنے کو ایسا سمجھے، طالبین نہ سمجھیں کہ میرا شیخ بھوسی ہے، ورنہ مرید پُھوسی ہوجائے گا۔ پُھوسی کہتے ہیں بلی کو، یعنی شیخ کو