اِصلاح صرف زندہ شیخ سے ہوتی ہے
تو میں عرض کررہا تھا کہ صحبتِ صالحین ہو، اہل اﷲ کی صحبت خصوصاً کسی صاحبِ سلسلہ شیخ کی صحبت ہو جو بیعت ہو کسی کے ہاتھ پر، تو اس کی صحبت کا کیا کہنا، کیوں کہ شیخ کی عظمت ہوتی ہے، احترام ہوتا ہے کہ میرا شیخ ہے۔ مثل مشہور ہے کہ اپنا پیر پیر، دوسرے کا پیر آدمی۔ عظمت کی وجہ سے اس کی اتباع آسان ہوتی ہے،اسی لیے اکابر نے صحبتِ شیخ کا ہمیشہ اہتمام کیا ہے، اسی لیے اپنے مشایخ کے انتقال کے بعد فوراً دوسرے شیخ کا انتخاب کیا تاکہ سر پر بڑے کا سایہ رہے،کیوں کہ مقصود اﷲ کی ذات ہے، شیخ ذریعۂ مقصود ہے۔ پس شیخ کو اتنا زیادہ مقصود بنالینا کہ صاحب ان کے بعد کسی سے دل ہی نہیں لگتا یہ شرک فی الطریق ہے اور یہ شخص اﷲ تعالیٰ کے مقابلے میں شخصیت کو ترجیح دے رہا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ فرمایا ہے،کُوْنُوْا امر ہے اور امر مضارع سے بنتا ہے جس میں تجدد استمراری کی شان ہے، جس سے ثابت ہوا کہ معیتِ صادقین میں استمرار ہو، ہمیشہ صادقین کے ساتھ رہو، کوئی زمانہ ایسا نہ ہو کہ معیتِ صادقین تمہیں حاصل نہ ہو۔ اور جب شیخ کا انتقال ہوگیا تو اس کا ساتھ تو ختم ہوگیا، لہٰذا دوسرا شیخ تلاش کرو،کیوں کہ اب اس کا فیض بند ہوگیا۔ مردہ شیخ سے اصلاح نہیں ہوتی، زندہ شیخ سے ہوتی ہے۔
مولانا رومی فرماتے ہیں: شیخ کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ ڈولیں نیچے کنویں میں گری ہوئی ہیں اور ایک آدمی کنویں کے اوپر زندہ کھڑا ہے اور وہ اوپر سے اپنی ڈول کنویں میں ڈالے ہوئے ہے جس سے وہ گری ہوئی ڈولوں کو کنویں سے نکال رہا ہے تو یہ شیخ ہے اور اس کے دو مرتبے ہیں: جسم سے وہ آپ کے ساتھ ہے اور روح کے اعتبار سے وہ دنیا سے باہر ہے۔ آپ کی روح کو وہ اپنی روح سے پکڑ کر دنیا سے نکال رہا ہے اور اﷲ تعالیٰ سے ملا رہا ہے، ولی اﷲ بنارہا ہے۔لیکن اگر وہ اوپر کا آدمی جو ڈول سے نکال رہا تھا انتقال کرگیا تو اب وہ کنویں سے نہیں نکال سکتا، کیوں کہ جس ہاتھ میں ڈول اور رسی تھی وہ نہیں رہا، لہٰذا اب دوسرا آدمی آئے اور اپنی ڈول ڈال کر کنویں سے دوسری ڈولوں کو نکالے گا۔ ایسے ہی شیخ کے انتقال کے بعد فوراً دوسرا شیخ کرو، کیوں کہ اس کا فیض اب بند ہوگیا۔ اگر خود بھی شیخ ہے تو اپنے خصوصی معاملات میں