قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللہِ اِنَّ اللہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا14؎
اے نبی! آپ میرے بندوں سے فرمادیں، جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا کہ میری رحمت سے نا امید نہ ہوں۔اب اس میں مشیت کی بھی قید نہیں۔ اِنَّ تاکیدہے، جملۂ اسمیہ دوام اور ثبوت پرمقتضی ہے اَلذُّنُوۡبْ پر الف لام داخل کردیا استغراق کا اور پھرجَمِیۡعًا کی بھی تاکید لگادی۔ چار چارتاکیدوں کے ساتھ فرمایا کہ کوئی بھی گناہ ہو، اﷲتعالیٰ سب بخش دے گا۔ اس آیت کو سن کر حضرت وحشی کیا کہتے ہیں؟نِعْمَ ہٰذَاو اہ! کیا ہی اچھی آیت ہے۔ فَجَاءَ وَاَسْلَمَ فوراًآئے اور اسلام قبول کرلیا۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم)! اﷲ تعالیٰ نے جو یہ آیت نازل فرمائی ہے ہٰذَا لَہٗ خَاصَّۃٌ اَمْ لِلْمُسْلِمِیْنَ عَامَّۃٌ کیا یہ وحشی کے لیے خاص ہے یا سب مسلمانوں کے لیے عام ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:بَلْ لِلْمُسْلِمِیْنَ عَامَّۃٌ 15؎سارے مسلمانوں کے لیے عام ہے۔اور آپ نے فرمایا کہ اس آیت کے بدلے میں اگر مجھ کو ساری کائنات بھی مل جائے تو مجھے عزیز نہیں، ساری کائنات سے زیادہ یہ آیت مجھے محبوب ہے مَا اُحِبُّ اَنَّ لِیَ الدُّنْیَا بِہٰذِہِ الْاٰیَۃِ 16؎ اﷲ تعالیٰ کی شانِ رحمت و کرم کاکون اندازہ کرسکتا ہے کہ اتنے بڑے مجرم کو اسلام عطا فرمایا، صحابی بنایا،یعنی بعد میں آنے والے تمام اولیاء سے افضل ہوگئے، جنتی ہوگئے۔اور اس کے ساتھ ایک انعام اور عطا فرمایا کہ زمانۂ جاہلیت اور حالتِ کفر میں ان سے سیدنا حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قتل کا جو گناہ ہوا تھا اس کی تلافی کا انتظام بھی فرمایا اور ان کے ہاتھوں سے ایک جھوٹے نبی مسیلمہ کذاب کو قتل کراکے ان کی تاریخ سیاہ کو روشن تاریخ سے تبدیل کردیا۔ معلوم ہوا کہ جب کوئی گناہ گار خواہ مرد ہو یا عورت صدقِ دل سے توبہ کرلے، تو اﷲ تعالیٰ اس کی رسوائیوں کو عزت سے تبدیل فرمادیتے ہیں اور اس کی ذلتوں کے جو چرچے ہورہے تھے کہ فلاں بڑا نالائق آدمی ہے، فلانی
_____________________________________________
14؎ الزمر :53
15؎ التفسیرالنسفی: 125/7،الزمر(53)، دارطیبۃ النشر ،ریاض
16؎ مسند احمد :45/37(22362)، ومن حدیث ثوبان ، مؤسسۃ الرسالۃ