اور بے حیائی کی مادر بدر آزاد دلدل میں ڈالنا گورارا گریں گے۔ خدارا اس اقتباس کو پڑھیں اور چشم بصیرت سے کام لیں، اپنے گھر والوں کے دین و ایمان کو مردہ کرنے اور بالآخر ختم کرنے والے خفیہ اور سلوپائیزن سے بچائیں اور اپنی قبر و آخرت کی خیر منائیں!!!!
اول تو اس زمانہ کی جنرل ایوب صاحب کی حکومت کے کارناموں کی گھر گھر تشہیر کرنا تھا اور دوئم بقول ان کے کہ
’’آپ کا دوسرا اور سب سے اہم مقصد یہ ہوگا کہ قوم اور پہلے متوسط طبقہ کو فرسودہ مذہبی تصورات سے آزاد کرائیں اور اس مقصد کو اس خوبی سے سرانجام دیں کہ لوگوں کو شعوری طور پر اس کا پتا نہ چلے کہ آپ جدید نسلوں کو مذہبی اثرات سے پاک کرنے کی کوئی مہم چلا رہے ہیں۔ اگر آپ نے یہ کام کرلیا تو یادرکھیے کہ ہم ہمیشہ کے لیے مذہبی جنونیوں اور ملاؤں سے اپنی معاشرت اور سیاست کو پاک کردیں گے۔
بنیادی مقاصد بتانے کے بعد بخاری صاحب نے شرکائے محفل کو علیحدہ علیحدہ ہدایات دیتے ہوئے عرض کیا کہ:
’’میں آپ سے ہر لکھنے والے کو اپنے پروگرام کے معاوضے کے علاوہ دوسو رپیہ ماہوار الگ سے دوں گا جو عربی پڑھے گا۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ٹی وی اور ریڈیو سے ایسے افراد کی بحیثیت عالم دین اور جدید مفکر کی حیثیت میں پیش کر سکیں اور ان تمام ملاؤں کے اثرات دور کرسکیں جو مذہب کے ٹھیکے دار بنے ہوئے ہیں اور جنہیں ہم طوعاً و کرہاً پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ کو مذہب کی خرفات سے معاشرہ کو نجات دلانے کا کام کرنا ہے اور اسی لیے ہم اس ادارے کے ذریعے بالکل جدید ذہنوں کو آگے لانا چاہتے ہیں۔ نئے میڈیئے کے ساتھ نئے ذہنوں کو نہ صرف فرسودہ اور مردہ تصورات سے نجات دلانے کے لیے استعمال کیا جائے گا بلکہ ان کی پوری قوم کے محسوسات اور طرز فکر کو بدلنا ہوگا۔ مثلاً ہم ہر سال بقر عید پر لاکھوں جانور سنت ابراہیمی کے نام پر ضائع کر دیتے ہیں۔ ایک تو یہ نہایت درجہ بے رحمی اور شقاوت کی بات ہے، دوسرے جو غلاظت اور گندگی پورے ملک میں تین دن تک طاری رہتی ہے وہ قومی معیشت کی برباری سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ آپ لوگ اس قسم کے تہواروں کے بارے میں یہ احساس نہیں ہونے دیں گے کہ ٹی وی ان کے خلاف ہے، لیکن نئے ذہنوں میں اس کے خراب اثرات کو اس طرح جاگزیں کردیں گے کہ کم ازکم وہ خود بڑے ہو کر اس سے محفوظ رہیں۔‘‘
اسی طرح شراب کا مسئلہ ہے۔ غضب خدا کا ان ملاؤں نے اسے بھی حرام کر رکھا ہے۔ مذہب میں شراب کی خرابیوں کا ذکر ان لوگوں کے لیے کیا گیا ہے جو ہوش وحواس کھو بیٹھتے ہیں، نالیوں میں گر جاتے ہیں۔ مگر بتایئے شراب میرے لیے کیسے حرام ہوسکتی ہے، جو اس کے بغیر تخلیقی کام انجام نہیں دے سکتا۔ وہ تو ایک توانائی پیدا کرتی ہے۔ آپ کو اس قسم کے ڈھکوسلوں کو بھی ختم کرنا ہے۔ شراب کے لیے گنجائش نکالنا اسی طرح ممکن ہے کہ آپ مثبت کرداروں کے ساتھ اس کو شامل کرکے ایسے افراد کی خرابیوں کو اجاگر کیجیے اور انہیں انسانی خرابیوں سے زیادہ مزین دکھائیے۔‘‘
اس کے بعد بخاری صاحب ان افراد کی طرف متوجہ ہوئے جن کو پروڈیوسر ہونا تھا اور فرمایا کہ:
’’ آپ اس مقصد کو اس طرح پورا کرسکتے ہیں کہ منافقت اور تضادِ کردار کے لیے منفی ڈرامہ کرداروں کے لیے داڑھی لگائیے۔ مضحکہ خیز کرداروں اور افراد کو مشرقی لباس پہنائیے۔ یہ یاد رکھیے کہ آپ کو اپنے تمام کرداروں اور اناؤنسروں کو وہ لباس پہنانا ہے جو ہمارے ترقی یافتہ معاشرے میں سو سال بعد رائج ہونا چاہیے اور جو اب ایک فیصد اوپر کے طبقہ میں رائج ہے۔‘‘
گوکہ یہ ہدایات بخاری صاحب کے لبوں سے جاری ہوئی تھیں مگر حقیقت میں اس بنیادی پالیسی کا حصہ تھیں جس کو مغرب زدہ لادینی نوکر شاہی اور صاحب اقتدار طبقہ نے تشکیل دیا تھا اور جس کے حصول کے لیے کروڑوں ڈالر قرض لے کر ٹی وی میڈیا کو وطن عزیز میں لایا گیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پچیس سال سے اس پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہماری نوجوان نسل کو اسلامی اقدارو مشرق تصورات سے بیگانہ اور