نے کان لگائے تو ان کو بھی یہ آواز سنائی دی ، انہوں نے بتایا کہ سچ مچ آواز آرہی ہے، تمہارے دماغ کا خلل نہیںہے۔ بہرحال اس روز تو ہم جلدی سے اپنے معمولات پورے کرکے واپس چلے گئے، دوسرے دن میں پھر واپسی میں مغرب کی نماز پڑھنے کے لیے اسے مقبر ے میں گیا اور یہ سوچ کر گیا کہ میں جاکر آج بھی وہ آواز سنوں گا۔ آیا وہ آواز آج بھی آرہی ہے یا نہیں؟ چناںچہ آج بھی میں نے وہاں جاکر پہلے مغرب کی نماز ادا کی اور پھر اپنے معمولات میں مشغول ہوگیا کہ پھر بالکل اسی طرح آج بھی قبر سے آواز آئے گی جس طرح گزشتہ کل آرہی تھی اورمیں نے قبر کے پاس جاکر کان لگائے تو وہی الفاظ سنے، جوکل سنے تھے۔ لہٰذا اب مجھے یقین ہوگیا کہ اس مردے کو قبر کا عذاب ہورہا ہے ۔ پھر جب میں وہاں سے لوٹا تو مجھ پر شدید خوف طاری ہوگیا اور خوف کی وجہ سے دوماہ تک مجھے بخار رہا۔
عذاب قبر کو پوشیدہ رکھنے کی وجہ:
احادیث میں حضور اقدس ﷺ نے واضح طور پر فرمایا کہ قبر میں میت کو جو عذاب ہوتا ہے اس کی چیخ وپکار کی آواز انسان اور جنات کے علاوہ باقی تمام مخلوق سنتی ہے اور انسان اور جنات کو اس لیے آواز سنائی نہیں دیتی کہ اگر ان کو بھی آواز سنائی دینے لگے تو سارے کے سارے راہ راست پر آجائیں۔ جتنے کافر ہیں وہ سب ایمان لے آئیں اور جو مسلمان بے دین اور فسق وفجور میں مبتلا ہیں وہ سب اپنی اصلاح کرکے نیک اور پارسابن جائیں، تو پھر سارا امتحان ختم ہوجائے اور مقصد فوت ہوجائے۔ کیوںکہ یہ دنیا دارالعمل ہے، دار الجزاء نہیں ہے۔ یہاں ایمان بالغیب معتبر ہے کہ نہ کچھ دیکھا ہے اور نہ عقل میں کچھ آتا ہے، مگر حضور اقدس ﷺ نے جو فرمادیا اس پر ہمارا ایمان ہے۔ دیکھنے سے ہمیں اتنا یقین نہ آتا جس طرح بِن دیکھے حضور ﷺ کے فرمان پر ہمیںیقین ہے۔ بس اسی ایمان کی قیمت ہے اور اسی پر اجر وثواب ہے۔
لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ قبر کے اس عذاب کو نظروں سے اوجھل کرنے کے باوجودکبھی کبھی، کہیں کہیں ہمیں دکھا دیتے ہیں اور اس لیے دکھا دیتے ہیں تاکہ ہم اس سے عبرت پکڑیں اور سبق سیکھیں۔
عذاب قبر کا سبب معصیات ہیں:
یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ قبر کا عذاب گناہوں پر ہوتا ہے اور یہ عذاب قبر اس لیے رکھا گیا ہے تاکہ ہم لوگ گناہوں سے باز آجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام بجالانے کے لیے دیئے ہیں ان کو بجالائیں اور گناہوں سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کریں۔ اگر خدانخواستہ ہم نے اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کی کوشش نہ کی، اور کوئی مسلمان بغیر توبہ کیے اس دنیا سے چلاگیا تو پھر قبر کا عذاب ہونا یقینی ہے۔ یوں تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں معاف فرمادیں۔ ان کی معافی کی کوئی حد نہیں ہے، ان کی رحمت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ لیکن قاعدہ اور ضابطہ یہی ہے کہ جو شخص بغیر توبہ کیے دنیا سے جائے گا اور گناہوں کے ساتھ ان کے پاس جائے گا تو قبر میں پہنچتے ہی اس کو عذاب ہوگا۔ جب یہ بات ہے تو ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی بہت زیادہ فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم لوگ اللہ کے فضل سے نماز بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ذکر بھی کرلیتے ہیں۔ تلاوت بھی ہوجاتی ہے، تسبیحات بھی پڑھ لی جاتی ہیں،لیکن جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر یہ بات نمایاں طور پر نظر آتی ہے کہ گناہوں کے چھوڑنے میں ہم لوگ بہت کاہل اور سست ہیں۔ بڑے بڑے گناہوں کے اندر ہم مبتلاہیں۔ اور ہم ان کو گناہ بھی نہیں سمجھتے اور چھوڑنے کی فکر بھی نہیں کرتے اور گناہوں کے اندر یہ خاصیت مسلّم ہے کہ جب کوئی شخص کسی گناہ کو مسلسل کرتا رہتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کے دل سے اس کی برائی نکل جاتی ہے۔ اس گناہ کا گناہ ہونا نکل جاتا ہے، تو پھر توبہ کی توفیق بھی کم ہوتی ہے۔ کیوںکہ اب اس کا ضمیر اس کو اس گناہ پر ملامت کرنا چھوڑ دیتا ہے اور جس دن ضمیر مر گیا تو پھر سمجھ لو کہ توبہ کی شاید ہی اس کو توفیق ہو۔ گناہوں کے اندر ہمارا معاملہ یہی ہے کہ گناہ ہم کرتے چلے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم گناہ کے عادی ہو گئے ہیں اور عادی ہونے کے بعد بعض گناہ ہمارے اندر ایسے عام ہوگئے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان سے بچنے