ان سے سوال کیا کہ حضرت آپ جنت اور جہنم کے تذکرے پر اتنانہیں روتے جتنا قبر پر جانے کے بعد آپ روتے ہیں۔ آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ یہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔ جو شخص یہاں عذاب قبر سے نجات پاگیا تو باقی منزلوں پر بھی وہ کامیاب ہوتا چلا جائے گا اور خدا نخواستہ اگر وہ اسی منزل پر پھنس گیا اور اس کو عذاب قبر شروع ہوگیا تو پھر آگے اس کے لیے اور زیادہ دشواریاں اور مشکلات ہوں گی۔ اس لیے اس پہلی منزل کی بڑی فکر ہوتی ہے کہ خدا کرے کہ یہ عافیت کے ساتھ گزر جائے، سلامتی کے ساتھ گزر جائے، تاکہ آگے کی منزلیں آسان سے آسان تر ہوتی چلی جائیں۔
عالم برزخ کی مثال:
یہ عذابِ قبر عالم بززخ میں ہوتا ہے، جو اس دنیا سے علیحدہ ایک عالم ہے۔ جس گڑھے میں ہم میت کو اتارتے ہیں اس میں عذاب نہیں ہوتا۔ اس میں تو ہم میت کو جس حالت میں اتارتے ہیں ویسی ہی رہتی ہے، البتہ اس کی روح عالم برزخ میں پہنچ جاتی ہے۔ اور پھر عالم برزخ سے اس کی روح کا جسم سے تعلق رہتا ہے۔ عذاب، ثواب، آرام، راحت، یہ سب عالم برزخ میں روح کو ہوتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ جسم وہاں کی راحت اور تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔
اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی آدمی سورہا ہو اور خواب کے اندر اس کو مارا جارہا ہو، یا جلایا جارہاہو، قتل کیا جارہا ہو۔ اب خواب کے اندر تو یہ سب حالات اس پر گزررہے ہیں لیکن ہم اس کو بالکل ٹھیک ٹھاک سویا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ البتہ اس کے جسم پر تھوڑے بہت آثار محسوس کرلیتے ہیں کہ وہ ڈر رہا ہے یا کپ کپارہا ہے یا اس کا جسم حرکت کررہا ہے اور اگر خواب کے اندر بڑی بڑی نعمتیں حاصل کررہا ہے، تب بھی وہ ہمیں یہاں سوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نہ کھاتا ہوا نظر آتاہے ، نہ پیتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر خواب میں کھارہا ہے، پی رہا ہے، سیرو تفریح کررہا ہے، بس اس دنیا کے اندر میت کے عذاب اور ثواب کو سمجھنے کے لیے یہ ایک مثال کافی ہے۔
لیکن کبھی کبھی اللہ تعالیٰ عبرت اور نصیحت کے لیے اس دنیا کے اندر بھی قبر کا عذاب دکھادیتے ہیں، اور کبھی وہاں کی نعمتیں دکھادیتے ہیں اور یہ سلسلہ سرکار دوعالم ﷺ کے زمانہ مبارک سے چلا آرہاہے۔ علمائے کرام نے اس موضوع پر بڑی بڑی کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور اپنے اپنے زمانے کے وہ واقعات لکھے ہیں جن میں قبر کا عذاب بیداری کی حالت میں یا خواب کی حالت میں دکھا گیا ہے۔
عذاب ِ قبر کا ایک واقعہ:
حافظ ابن رجب حنبلی ؒ نے اپنی کتاب احوال القبور میں لکھا ہے کہ ایک صاحب نے ذکر کیا کہ میں اپنی زمین پر کام کیا کرتا تھا۔ ایک دن شام کے وقت جب میں گھر کی طرف واپس جانے لگا تو راستے ہی میں مغرب کا وقت ہوگیا۔ راستے میں قریب ہی ایک مقبرہ تھا۔ میں نے مغرب کی نماز وہاں پڑھنے کا ارادہ کرلیا۔ چنانچہ میں نے اور میرے ایک دو ساتھیوں نے وہاں جاکر مغرب کی نماز ادا کی اور مغرب کی نماز ادا کرکے شام کے معمولات اور تسبیحات وہیں بیٹھ کر پوری کررہا تھا اور جب آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگا تو یکایک مجھے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا تو کچھ نظر نہ آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ’’ہائے ہائے‘‘ کی آواز سنائی دی، جس کی وجہ سے میں ڈر گیا اور میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ پھر جب میں نے آواز کی طرف دھیان لگایا تو قبر کے اندر سے آرہی تھی۔ میں قبر کے پاس گیا اور اپنے کان قبر سے لگائی تو قبر کے اندر سے ہائے ہائے کی آواز کے ساتھ یہ آواز بھی رہی تھی کہ۔
قَدْ کُنْتَ اُصَلِّیْ وَقَدْ کُنْتُ اَصُوْمُ
’’ میں تو نماز بھی پڑھا کرتا تھا اور روزے بھی رکھا کرتا تھا۔‘‘
پھر مجھے یہ سزا کیوں دی جارہے ہے؟ اور اس کی آواز ایسی دردناک تھی کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ پھر میں اس قبر کے پاس سے اٹھا اور میرے جو دوسرے ساتھی قریب ہی نماز پڑھ رہے تھے ان کو بلا کرلے آیا اور ان سے کہا کہ تم بھی ذرا یہ آواز سنو، واقعتا یہ آواز آرہی ہے یا میرے ذہن کا خلل ہے۔ جب انھوں