کا ہم شاید ارادہ بھی نہیں رکھتے اور جب کسی گناہ سے بچنے کا ارادہ ہی نہ ہو تو پھر تو بہ کی توفیق کہاں سے ہوگی؟ اور جب توبہ کی توفیق نہ ہوئی تو پھر آنکھ بند ہوتے ہی کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ بچائے۔ اس میں شدید خطرہ ہے کہ آنکھ بند ہوتے ہی عذاب قبر شروع نہ ہوجائے۔
ٹی وی کا گناہ، جسے ہم گناہ نہیں سمجھتے:
یوں تو ہم صبح سے شام تک بہت سے گناہ کرتے ہیں، لیکن اس وقت میں صرف ایک گناہ کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ ٹی وی دیکھنے کا گناہ ہے۔ اب دیکھیے ! یہ گناہ کتنا عام ہے۔ ساری دنیا میں پھیل گیا ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ پنج وقتہ نمازی ہیں، حاجی ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، وہ بھی اس گناہ کے اندر مبتلا ہیں اور میرے خیال میں شاہد ہی کوئی شخص ہوگا جو اس گناہ کو گناہ سمجھتا ہو اور اب یہ گناہ تیزی سے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور روزبروز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس گناہ سے بچنے والے اب زیادہ نظر نہیں آتے اور مبتلا ہونے والے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور اب تو بڑے بڑے ڈش اینٹینا لگنے شروع ہوگئے ہیں، جس کے ذریعہ ساری دنیا کی فلمیں گھر بیٹھے بیٹھے بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔ گھر گھر سینما ہال بنا ہوا ہے۔ پہلے سینما جا کر دیکھنے کو اس قدر برا اور ذلیل کام سمجھا جاتا تھا کہ کوئی شریف آدمی ایسا کرنے کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن اب وہی شرفاء گھر کے اندر نہایت بے باکی کے سات اور سارے اہل خانہ کے ساتھ بیٹیوں کے ساتھ بیٹھ کر فلمیں دیکھ لیتے ہیں اور اس پر انہیں ذرہ برابرحیاء اور شرم محسوس نہیں ہوتی۔ یہ کیا ہو گیا؟ بات یہ ہے کہ اس برائی کی شناعت دل سے نکل گئی اور اس کا گناہ ہونا ذہن سے نکل گیا۔ اس کی برائی ذہن سے نکل گئی،حیا کا خاتمہ ہو گیا، بس اسی کا یہ نتیجہ ہے۔ العیاذ باللہ (اللہ اپنی پناہ میں رکھے) (آمین)
فلم اور ایصال ثواب:
تعجب کی بات ہے کہ اس گناہ کو گناہ بھی نہیں سمجھتے۔ اس پر ایک عجیب و غریب واقعہ یادآیا۔ یہ واقعہ ایک رسالہ ’’ ٹی وی کی تباہ کاریاں‘‘ کے اندر لکھا ہوا ہے کہ ایک صاحب لاہور کے رہنے والے تھے۔ ان کی والدہ کسی تقریب میں شرکت کے لیے کراچی آئی ہوئی تھیں۔ یہاں آکر وہ بیمار ہوئیں۔ ان کو ہسپتال میں داخل کیا گیا اور ان صاحب کو لاہور میں اطلاع دی گئی۔ وہ بھی لاہور سے کراچی آگئے۔ پوری توجہ سے ان کا علاج کیا گیا۔ لیکن بالآخر ان کا انتقال ہوگیا اور ان کو کفنا کر دفن کردیا گیا۔ جب وہ شخص اپنی والدہ کو دفن کرکے قبرستان سے واپس آرہے تھے تو راستے میں ایک میدان کے اندر دیکھا کہ شامیانے لگے ہوئے ہیں۔ قناتیں کسی ہوئی ہیں۔ یہ سمجھے کہ کوئی سیاسی جلسہ ہورہا ہے، لیکن جب وہ معلوم کرنے کے لیے اندر گئے تو وہاں دیکھا فلم چل رہی تھی اور تمام لوگ میدان میں بیٹھے ہوئے فلم دیکھ رہے تھے۔ان صاحب نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا ماجراہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ایک صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔ آج ان کا چہلم ہورہا ہے اور ہم سب ان کے چہلم میں شریک ہیں اور مرحوم کو یہ فلم بہت پسند تھی، اس لیے ہم ان کے ایصال ثواب کے لیے یہ فلم دیکھ رہے ہیں۔ تاکہ ان کو اس کا ثواب پہنچے۔ نعوذباللہ۔
اب بتائیے! اس عمل کے ذریعے ایصال ثواب ہوگا یا ایصال عذاب ہوگا؟ ہماری ذہنی سوچ کہاں تک پہنچ گئی ہے۔ ہمارا دین سے پستی کا عالم کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ اب ہمارا یہ حال ہے کہ ایک حرام اور ناجائز کام کو چہلم کے ایصال ثواب کے لیے کیا جارہا ہے۔
ٹی وی میں سارے گناہ جمع ہیں:
اب ایسے لوگ بھی بکثرت ہوں گے جو یہ سمجھتے ہوں کہ ٹی وی دیکھنے میں کیا حرج ہے۔چنانچہ ٹی وی دیکھنے والوں میں اکثر لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ٹی وی دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ افسوس! جس چیز کے گناہ ہونے میں کوئی شک نہیں آج اس کا گناہ ہونا سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ حالاںکہ دوتین باتیں تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ وہ اسلام میں بالکل حرام ہیں اور یہ چیزیں ٹی وی کے اندر موجود ہیں۔ جن میں۔
(۱) ایک گانا بجاناہے۔ یہ اسلام میں بالکل حرام ہے اور حضور ﷺ کے متعدد ارشادات اس کی حرمت پر موجود ہیں۔