میرے قابل احترام بزرگو! سرکارِ دو عالم جناب رسول ﷺ ایک مرتبہ کسی انصاری صحابی کے جنازے میں شرکت فرماتے ہوئے جنت البقیع تشریف لے گئے۔ جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ قبر کی تیاری میں ابھی کچھ دیر ہے لہٰذا نبی کریم ﷺ ایک جگہ جلوہ افروز ہوگئے۔ اس حدیث کے راوی حضرت براء بن عازب ؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اقدس ﷺ کے آس پاس باادب بیٹھ گئے اور ہم اس کیفیت کے ساتھ بیٹھ گئے جیسے کہ ہمارے سروں پر پرندے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں بے پناہ ادب اور دین کی طلب اور تڑپ پائی جاتی تھی کہ جب وہ حضور اقدس ﷺ کے پاس دین کی کوئی بات سننے کے لیے بیٹھتے تو بالکل ہمہ تن متوجہ ہو کر بیٹھتے تھے، نہ ادھر ادھر دیکھتے اور نہ اس طرح بیٹھتے جیسے کہ ان کے اندر طلب نہیں۔ ادب بھی یہی ہے۔
حضرت براء بن عازب ؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت حضور اقدس ﷺ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی لکڑی تھی۔ آپ کی گردن جھکی ہوئی تھی اور جس طرح ایک بہت ہی فکر مند انسان بیٹھا ہوا لکڑی سے زمین کو کریدا کرتا ہے بالکل اسی طرح نبی کریم ﷺ بیٹھے ہوئے لکڑی سے زمین کرید رہے تھے اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ حضور ﷺ پر بہت زیادہ غم چھایا ہوا ہے اور بہت گہری فکر اور سوچ میں آپ متفکر ہیں اور ہم سب صحابہ خاموش بیٹھے ہیں۔ اسی دوران سرکار دو عالم ﷺ نے دو یا تین مرتبہ اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا کہ قبر کے عذاب سے پناہ مانگو، قبر کے عذاب سے پناہ مانگو، قبر کے عذاب سے پناہ مانگو، اس کے بعد آپ نے قبر کے عذاب اور ثواب کے بارے میں کافی طویل وضاحت فرمائی۔
تقریر اور وعظ کے دوران تسبیحات نہیں پڑھنی چاہیں:
اس حدیث میں تین باتیں ہمارے لیے بطور سبق کے موجود ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب ہم کسی کے پاس دین کی باتیں یا دین کا تذکرہ سننے کے لیے جائیں یا دین کی باتیں سیکھنے کے لیے یا پوچھنے کے لیے جائیں تو اس کا ضروری ادب یہ ہے کہ ادھر ادھر کے خیالات سے اپنے ذہن کو پاک صاف کرکے بات کہنے والے کی طرف پوری طرح متوجہ ہو کر بیٹھیں۔ اسی لیے علما نے فرمایا کہ دین کے تذکرہ کے دوران اور وعظ کے دوران زبان سے ذکر بھی نہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ بعض لوگ وعظ کے دوران تسبیح بھی پڑھ رہے ہیں اور وعظ بھی سن رہے ہیں۔ علما نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لیے کہ یہ ادب کے خلاف ہے۔ ادب یہ ہے کہ اس وقت زبانی ذکر بھی موقوف کردیا جائے اور ہمہ تن اپنے آپ کو دین کی باتیں سننے میں مشغول رکھا جائے۔ جیسا کہ اس حدیث سے صحابہ کرام کا یہ عمل ظاہر ہوا کہ وہ ہمہ تن حضور اقدس ﷺ کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے تھے اور ایسے جامد اور ساکت بیٹھے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ اس لیے کہ پرندہ ہمیشہ جامد اور غیر جاندار چیز پر بیٹھتا ہے۔ گویا کہ یہ بالکل بے جان ہو کر اس طرح بیٹھے ہیں کہ دل بھی حاضر اور دماغ بھی حاضر ہے۔
قبرستان جانے کا اسلامی طریقہ:
دوسرا ادب اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ قبرستان پہنچنے کے بعد اگر قبر کے تیار ہونے میں کچھ دیرہے تو قبرستان میں بیٹھ سکتے ہین، لیکن قبر پر نہیں بیٹھنا چاہئے اور نہ کسی قبر پر کھڑے ہونا چاہئے۔ آج کل لوگ جب قبرستان جاتے ہیں تو بہت سے لوگ قبروں پر بیٹھ جاتے ہیں یا کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شرعاً اس کی اجازت نہیں، ناجائز ہے۔ اس لیے قبر سے ہٹ کر بیٹھنا چاہئے اور قبرستان میں چلتے وقت قبروں کے اوپر نہیں چلنا چاہئے بلکہ جو گزرگاہ بنی ہوئی ہو اس پر چلنا چاہیے۔
قبرستان جانے کا مقصد اپنی موت کو یاد کرنا بھی ہے:
ایک اور ادب اس حدیث میں ہمارے لیے یہ ہے کہ قبرستان میں جاکر ہمیں اپنی موت کو سوچنا چاہیے، اپنی قبر کو سوچنا چاہیے۔ آج کل اس ادب سے ہمارے اندر بڑی غفلت پائی جاتی ہے۔ جب ہم قبرستان کی طرف جاتے ہیں تو بھی دنیا کی باتیں کرتے ہیں اور قبرستان میں پہنچ کر بھی دنیا ہی کیا باتیں کرتے ہیں۔وہاں کی قبروں کو دیکھ کر ہمیں اپنی قبر اور اپنی موت یاد نہیں آتی، حالاںکہ قبرستان جانے کا اصل