پہنچے تو ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا کہ ایک عورت کی لاش کمرے میں رکھی ہے اور بہت بڑے بڑے کنکھجورے اس لاش کے چاروں طرف سرسے لے کر پاؤں تک دائیں بائیں منہ کھولے کھڑے ہیںاور وہ اتنی خوف ناک شکل کے تھے کہ ان کو دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ قریب جانے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی اور سارے گھر والے خوف کے مارے دوسرے کمرے میں جمع تھے۔ دہشت کی وجہ سے کوئی شخص اس کمرے میں نہیں جارہا تھا۔ گھر والوں نے ہم سے کہا کہ آپ نیک لوگ ہیں۔ ہم آپ کو اس لیے بلا کر لائے ہیں کہ ہمارا تو خوف سے برا حال ہورہاہے۔ آخر اس میت کو بھی اس کی جگہ پر پہنچا نا ہے۔ کیسے اس کو غسل دیں؟ کس طرح اس کو یہاں سے اٹھائیں؟یہ کنکجھورے چاروں طرف سے اس کو گھیرے ہوئے ہیں۔ہمارے تو قریب جاتے ہوئے پتہ پانی ہورہا ہے۔ آپ حضرات کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کریں اور دعا کریں تاکہ کم از کم اتنا موقع مل جائے کہ ہم اس کو اس کی قبر میں اتار دیں اور اس فرض سے سبک دوش ہوجائیں۔
یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بھی خوف محسوس ہوا، لیکن ہم دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ یہ اس کے کسی گناہ کا عذاب ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے ہماری عبرت کے لیے ظاہر کیا ہے۔ چناںچہ ہم سب ایک کونے میں بیٹھ کر اس کے لیے استغفار کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگے کہ یا اللہ! مہربانی فرما اور اتنی دیر کے لیے اس عذاب کو ہٹادیجیے کہ ہم اس کو غسل اور کفن دے کر اس کو اس کی قبر تک پہنچادیں اور یہ فریضہ ادا کرلیں۔ اس کے بعد کافی دیر تک ہم پڑھتے رہے، استغفار کرتے رہے، روتے رہے اور آنسو بہاتے رہے۔ کافی دیر بعد دیکھا کہ وہ سب کنکھجورے اچانک میت کا محاصرہ چھوڑ کر ایک کونے میں جمع ہو گئے۔ بس ہم نے کہاکہ اب اللہ تعالیٰ کی رحمت آگئی ہے۔ اس نے اپنا فضل فرمایا۔ اب تم لوگ اس کو غسل اور کفن دے دو۔ چناںچہ غسل اور کفن کے بعد اس کی نماز جنازہ ہوئی اور اسے قبرستان لے گئے اور جاکر اس کوقبر میں اتار دیا۔ جس وقت قبر میں اتارا تو دیکھا کہ وہ سب کنکھجورے ایک کو نے میں جمع ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے ۔آمین۔
آذان کی بے حرمتی کا وبال:
اس کو دفنانے کے بعد دوبارہ اس کے گھر یہ پوچھنے کے لیے گئے کہ آخر اس کا ایسا کون ساعمل تھا جس کی وجہ سے اس کو یہ عبرت ناک عذاب ہوا اور خدا جانے اب اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ اس کی ماں نے بتایا کہ وہ نیک صالح تو نہیں تھی ، بے نمازی تھی، لیکن ایک بات جو مجھے یاد ہے شاید اس کی وجہ سے اس پر عذاب ہواہو۔ وہ یہ کہ ٹی وی دیکھنے کی بڑی شوقین تھی۔ ایک دن وہ ٹی وی دیکھ رہی تھی اور اس وقت اس پروگرام میں ایک رقاصہ ایک خاص گانا گارہی تھی اور وہ گانا اس لڑکی کو بہت پسند تھا۔ اسی دوران اذان شروع ہوگئی۔ میں نے اس کہا کہ بیٹی، اذان ہورہی ہے اللہ کا نام بلند ہو رہا ہے، اس گانے کی آواز بند کر دو اورٹی وی بند کردو۔ اس نے کہا اماں! اذان تو روزانہ ہوتی رہتی ہے، لیکن یہ پروگرام اور یہ گانا پھر کہاں آئے گا۔ ہم نے سن کر کہا بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرتے ہی فوراً یہ عذاب جو شروع ہوا ہے، یہ اسی گناہ کا وبال اور عذاب ہے۔ اس لیے کہ اس نے اللہ کی اذان کے مقابلے میں گانے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے یہ عذاب ہوا۔ استغفر اللہ۔
ٹی وی اور رمضان کی بے حرمتی:
حقیقت یہ ہے کہ جب آدمی ٹی وی کا شوقین ہوجاتا ہے اور اس کا عادی ہوجاتا ہے تو پھر اس کو دین کی پرواہ نہیں رہتی۔ چناںچہ دیکھ لیجیے ہمارے یہاں رمضان شریف میں کس ڈھٹائی کے ساتھ ٹی وی دیکھا جاتا ہے۔ ایک طرف تراویح ہورہی ہے، دوسری طرف ٹی وی چل رہا ہے، فلمیں آرہی ہیں اور ہمارے دشمن ٹی وی کے ان پروگراموں اور فلموں کو ایسے اوقات میں رکھتے ہیں تاکہ مسلمان افطار توجہ سے نہ کرسکیں، تروایح نہ پڑھ سکیں۔ چناںچہ مسجدوں میں تراویح ہوتی ہے اور لوگ اس وقت ٹی وی دیکھنے میں مشغول ہوتے ہیں اور ٹی وی کہ وجہ سے نماز میں نہیں آتے۔
یہ گناہ ہر ہر گھر میں بکثرت ہورہا ہے اور تیزی سے پھیلتا چلا جارہا ہے لیکن اس کا انجام بڑا خراب ہے، آخرت کا عذاب بڑا شدید ہے اور اس میں ایک گناہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے،