رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جب میت کو دفن کردیا جاتا ہے تو اس کی روح اس کے بدن میں لوٹا دی جاتی ہے۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اس کو بٹھاتے ہیں۔ اور اس سے پوچھتے ہیں۔ ’’تیرا رب کون ہے؟‘‘ مومن بندہ جواب دیتا ہے کہ ’’میرا رب اللہ ہے۔‘‘پھر پوچھتے ہیں کہ ’’تیرا دین کیا ہے۔‘‘ مومن جواب دیتا ہے کہ’’ میرا دین اسلام ہے۔‘‘ پھر پوچھتے ہیں ’’ یہ کیسا شخص ہے جو تم میں مبعوث ہوا؟‘‘ ( کہا جاتا ہے کہ آں حضرت محمد ﷺکی شبیہ مبارک رکھا کر یہ سوال کیا جاتا ہے۔ واللہ اعلم) مومن جواب دیتا ہے۔’’ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں۔ فرشتے پوچھتے ہیں کہ ’’ تجھے اس کا علم کیسے ہوا؟‘‘ مومن کہتا ہے کہ ’’ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، پس میں ایمان لے آیا، اور میں نے آںحضرت محمد ﷺ کی تصدیق کی۔‘‘ پس آسمان سے ایک منادی ( اللہ تعالیٰ کی جانب سے ) ندا دیتا ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا، لہٰذا اس کے لیے جنت کا فرش بچھاؤ اور اس کو جنت کا لباس پہناؤ اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ آں حضرت ﷺ فرماتے ہیں۔
فَیَاْتِیْہِ مِنْ رُّوْحِھَاوَطِیْبِھَا فَیَضَسَّحُ لَہٗ فِیْ قَبْرِہٖ مُدَّ بَصَرِہٖ(مشکوۃ، ص۱۴۲۔ بروایت احمد عن البراء بن عازبؓ)
ترجمہ: نیک آدمی کو جنت کی راحت اور خوشبو آتی ہے اور جہاں جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے اس کے لے قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔
احوال قبر کے منکروں کے بے عقلی:
یہ علم غیب کی چیزیں ہیں اور لوگ بے چارے ہر چیز کو اپنی عقل و قیاس کے پیمانے سے پیمائش کرنے کے عادی ہیں۔ یہ لوگ قبر کے ان احوال کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے تو نہیں دیکھا کہ یہاں عذاب ہورہا ہے۔ یہاں پہ یہ ہورہا ہے، یہاں وہ ہورہا ہے، ثواب ہورہا ہے۔ میاں! تمہارے فکر و قیاس کے پیمانے نہیں چلتے، یہاں خدائی پیمانے چلتے ہیں، یہاں تمہارا مشاہدہ کام نہیں کرتا۔
برے آدمی کی قبر کا حال:
اور برے آدمی کے لیے قبر اتنی تنگ کردی جاتی ہے کہ ادھر کی پسلی اُدھر اور اُدھر کی پسلی ادھر جاتی ہے۔ گویا شکنجہ میں جکڑ دیا گیا ہے۔ نعوذ باللہ (اللہ کی پناہ)۔ وہ چیختا ہے، چلاتاہے، روتا ہے، آنسو ختم ہوجاتے ہیں تو خون آنے لگتا ہے، خون ختم ہوجائے تو پیپ آنے لگتی ہے۔ یہ اس کی اپنی زندگی کی کمائی ہے اور اس پر ننانوے سانپ زہریلے مقرر کردیئے جاتے ہیں اور ایسے سانپ کہ ان میں سے ایک بھی اگر زمین پر پھنکار دے تو پوری زمین کا سبزہ اور روئیدگی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ سانپ ہیں، بچھو ہیں، تاریکی ہے، یہ اس قید خانے میں بند کیا گیا ہے، ابھی حوالات میں بند ہے، ابھی اس کا حساب و کتاب تو بعد میں ہوگا۔ یہاں تو معمولی سوال و جواب ہوتے ہیں۔
قبر جنت کا باغیچہ یا دوزخ کا گڑھا:
اس کے مقابلے میں نیک آدمی کی قبر سبحان اللہ! گویا تخت سلیمانی بچھا دیا گیا ہے۔ اس کے لیے آںحضرت ﷺ کا ارشاد ہے۔
اَلْقَبْرُ رَوْضَۃُ ٗ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ، اَوْ حَضْرَۃُ ٗ مِّنْ حَضْرِ النَّارِ
ترجمہ: ’’قبر جنت کے باغیچے میں سے ایک باغیچہ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔‘‘
اور یہ باغیچہ بھی اس نے اپنی زندگی میں تیار کیا اور گڑھا بھی خود کھودا تھا۔
تیسرا مرحلہ حشر:
یہ دوسرا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد آدمی کا حشر ہوگا۔ اس کو قبر سے اٹھایا جائیگا۔ حالاںکہ قبر میں اتنی مدت اس کو گذری ہوگی، لیکن جب حشر کا صور پھونکا جائے گا۔ تو قرآن کریم کی سورئہ یاسین میں ہے کہ کافر کہیں گے۔
یٰا وَیْلَتَنَامَنْ م بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ھٰذَا مَاوَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَO
ترجمہ:’’ ہائے کس نے ہمیں خواب گاہ سے اٹھادیا؟ کہا جائے گا کہ یہ وہ چیز ہے رحمان نے جس کا تم