میرے شیخ شہر سے دور جنگل میں رہتے تھے جہاں سے قصبہ پھولپور کا راستہ دس منٹ کا تھا۔ وہاں اللہ کی یاد میں ان کی آہ وفغاں اور آہ ونالے جاری رہتے تھے۔وہی میرے شیخ بھی ہیں اور وہی میرے استاذ حدیث بھی ہیں۔ جو کچھ میں نے سیکھا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سیکھا۔ انہوں نے بخاری شریف پڑھی مولانا ماجد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے، جو ساتھی تھے شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد مولانا یحییٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے، ان دونوں بزرگوں نے بخاری شریف پڑھی تھی مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے۔ تو مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان اور اختر کے درمیان جو اس وقت آپ سے خطاب کررہا ہے،حدیث کےصرف دو واسطے ہیں، مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا ماجد علی صاحب جونپوری رحمۃ اللہ علیہ۔ ان دو واسطوں سے اختر گویا مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی بات آپ لوگوں کے سامنے پیش کرے گا۔
تو میں نے اپنے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں یہ شعر کہا تھا؎
وہ اپنی ذات میں خود انجمن ہے
اگر صحرا میں ہے پھر بھی چمن ہے
اللہ والے جہاں بھی رہتے ہیں ایک کائنات اپنے ساتھ لیے رہتے ہیں، ان کی ذات خود انجمن ہے، اگر جنگل میں بھی ہیں تو منگل ہے بلکہ رشکِ منگل ہے۔ جن کے غلاموں کی یہ شان ہے تو اللہ تعالیٰ کی کیا شان ہوگی؟ وہ اگر نَحْنُ نازل فرمائیں تو یہ حق دراصل ان ہی کا ہے۔ تمام شانیں ان ہی کو زیبا ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ کہ قرآنِ پاک کی حفاظت ہمارے ذمہ ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے کسی صحیفۂ آسمانی کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ نہیں لیا تھا، بلکہ ان کی حفاظت اس زمانے کے علماء کے سپرد تھی،چناں چہ چند نسلوں کے بعد صحیفۂ آسمانی فروخت ہونے لگے۔ قرآنِ پاک چوں کہ آخری کتاب ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم چوں کہ آخری نبی ہیں، لہٰذا قیامت تک کے لیے اس کتاب کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی اور وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ جملۂ اسمیہ سے نازل فرمایا جو دوام اور ثبوت پر دلالت کرتا ہے،یعنی قیامت تک قرآن شریف کوکوئی مٹا نہیں